ماہِ صفر اور من گھڑت باتیں

کلمۂ حق

مولانا محمد منصور احمد

آج مسلمان کہلانے والوں میں سے بہت سے لوگوں کا نہایت مہلک اور بد ترین عیب توہم پرستی میں مبتلا ہونا ہے ۔

عام طور پر کچھ لوگ جو کمزور عقیدے کے حامل اور ذہنی طور پر پسماندہ ہوتے ہیں ، اس لیے وہ حالات سے بہت جلد دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں ۔ اگر ان کی مرضی کے مطابق کوئی کام نہ ہو تو دل چھوڑ بیٹھتے ہیں اور درپیش معاملے کو عقل و شعور کی روشنی میں دیکھنے جا نچنے اور پرکھنے کے بجائے مختلف قسم کے توہمات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

بعض لوگ تو اس قدر توہم پرست ہوتے ہیں کہ اگر کوئی شخص خود اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر کہہ دے کہ فلاں دن فلاں واقعہ رونما ہوا تھا ، لہٰذا اس دن کام نہ کرنا اور اگر تم نے کوئی کام کیا تو تم طرح طرح کی مشکلات اور مصیبتوں میں پھنس جائو گے ، تو وہ نادان لوگ اس دن اپنا کام کاج ہی چھوڑ دیتے ہیں ۔

’’کا لی بلی راستہ کاٹ دے تو آج کا دن منحوس ہوگا‘‘

’’کوا منڈیر پر بولے تو آج مہمان آئیں گے‘‘

’’دائیں آنکھ پھڑکے تو آج کوئی خوشی ملے گی اور بائیں آنکھ پھڑکے تو کوئی مصیبت آئے گی ‘‘

’’ہتھیلی میں خارش ہو تو کہیں سے دولت آئے گی‘‘

’’محرم الحرام غم کا مہینہ ہے ،اس لیے اس میں کی ہوئی شادی ناکام ہوگی ‘‘

’’صفر کا مہینہ منحوس ہے ،اس لیے اس میں مروجہ قرآن خوانی کروانی ہو گی ‘‘

’’شام کو گھر میں جھاڑو نہیں لگانی ورنہ روزی کی تنگی ہو جائے گی ‘‘

’’جوتی الٹی پڑی ہو تو لعنت اوپر جاتی ہے‘‘

’’نماز پڑھ کر جائے نماز کا کونہ تہہ کر دینا چاہیے ورنہ اس پر شیطان نماز پڑھتا ہے‘‘

بعض لوگ لڑکی کی پیدائش کو نحوست خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب سے یہ پیدا ہوئی ہے گھر سے برکت اٹھ گئی ہے ۔ میں نے اس کی پیدائش کے بعد کبھی خوشی کا منہ نہیں دیکھا ۔ اس کے پیدا ہونے کی وجہ سے اہل خانہ مختلف تنگیوں اور آزمائشوں میں مبتلا ہیں ۔ بعض خواتین یہی نظریہ اپنی بہو کے بارے میں بھی رکھتی ہیں ۔

یہ اور اس طرح کے بے شمار عقیدے ہیں ،جو جہالت اور دین سے دوری کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں رچ بس چکے ہیں ۔ان میں سے بہت سی باتیں جن کا تعلق توہم پرستی اور چھوت چھات سے ہے وہ ہمارے ہاں ہندوؤں کے ساتھ رہن سہن کی وجہ سے آئیں اور باقی جو کسر رہ گئی تھی وہ گھر گھر چلنے والی انڈین فلموں نے پوری کر دی ۔

ہم نے جب صحیح بخاری شریف کے سبق میں یہ حدیث پاک پڑھی تھی:

لا عدوٰی ولا طیرۃ ولا ہامۃ ولا صفر

(چھوت چھات کی کوئی حقیقت نہیں ۔بد فالی لینا بھی کوئی نہیں ۔بے چین روح کا تصور بھی بے بنیاد ہے اور صفر کا مہینہ منحوس نہیں ہے)

اور استاد محترم نے اس کی تشریح کرتے ہوئے عرب کے دور جا ہلیت میں پھیلے ہوئے توہم پرستی اور بد فالی کے نظریات پر طویل گفتگو فرمائی تو ہم یہ ہی سمجھے کہ شاید یہ سب کچھ اسلام آنے سے پہلے کی خرابیاں ہیں ۔اس وقت چونکہ لوگوں کے سامنے نہ تو قرآن مجید تھا ،نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ،اس لیے وہ ایسی جاہلانہ خیالات کا آسانی سے شکار ہو جاتے تھے ۔اب تو یہ سب باتیں صرف ’’کتابی‘‘ ہی معلوم ہوتی ہیں ۔

مگر بعد میں جب عملی زندگی میں قدم رکھا اور عوام سے واسطہ پڑا تو پتہ چلا کہ یہ ہماری محض خوش گمانی تھی کہ صرف دور جاہلیت کے عرب ہی ان توہمات کا شکار تھے۔یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان باتوں میںاگر دور ِ جاہلیت کے لوگوں سے ایک قدم آگے نہیں تو یقین جانیں ایک قدم پیچھے بھی نہیں ہے ۔ توہم پرستی  بد خالی اور نحوست کے خیالات دلوں میں ایسے بیٹھے ہوئے ہیں کہ ان کی اہمیت ‘ قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان کردہ واضح احکامات سے بھی زیادہ جمی ہوئی ہے ۔ ایسے لوگوں سے آپ کو بہت کم کوئی شخص ملے گا جو یہ کہے کہ :

’’ میرے گھر میں پریشانیاں اس لیے ہیں کہ ہم لوگ نماز کی پابندی نہیں کرتے‘‘ ۔

’’ ہمارے ہاں گھنائونی بیماریاں اس لیے زیادہ ہیں کہ ہم توبہ واستغفار نہیں کرتے ‘‘۔

’’ ہر کچھ عرصے بعد ہمارا نقصان اس لیے ہو جاتا ہے کہ ہم زکوٰۃ اہتمام سے ادا نہیں کرتے‘‘۔

’’ ہمارے دل اس لیے بے چین اور مضطرب رہتے ہیں کہ ہم نے شرعی پردے کی پابندی چھوڑ دی ہے‘‘۔

’’ہمارے گھروں کے درودیوارپر اس لیے ہر وقت وحشت برستی ہے کہ دن‘ رات وہاں عریاںفلمیں چلتی ہیں‘‘۔

’’ ہمارا کوئی کام اس لیے ڈھنگ سے نہیں ہوتا کہ ہماری روزی حلال نہیں بلکہ اس میں سود‘ رشوت‘ ملاوٹ یا دھوکہ دہی کی ملاوٹ ہے‘‘۔

حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ نحوست کسی شخص‘ کسی بلی‘ کسی الو‘ کسی کوے یا کسی وقت میں نہیں ، صرف اور صرف ہمارے برے اعمال اور گناہوں میں ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ بہت سے گناہ ایسے ہیں جن کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے ۔ یہ دنیا کی سزا کبھی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے محرومی ، کبھی سنت ِ پاک کے مبارک طریقوں سے غفلت ، کبھی رزق کی تنگی ، کبھی دل کی بے سکونی ، کبھی قسم قسم

کی بیماریوں ، کبھی اولاد کی نافرمانی اور کبھی تھانے کچہریوں کے چکر کی شکل میں ہوتی ہے ۔

ایک مسلمان کیلئے تو اتنی ہی بات کافی ہے کہ جب قرآن مجید اور احادیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس توہم پرستی سے منع کر دیا گیا تو اب اُسے ایسے بے بنیاد خیالات سے باز آجانا چاہیے ۔ یہ توہم پرستی اور نحوست کا عقیدہ اتنا برا نظریہ ہے کہ اس کی براہِ راست زد اسلام کے بنیادی عقیدئہ توحید اور تعلق مع اللہ پر پڑتی ہے ۔ پھرصفر کے مہینے کے بارے میں خاص طور پر سوچنے کی بات یہ ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس سال کی عمرِ مبارک میں اعلانِ نبوت فرمایا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۲۳ ؍سال تک صحابہ کرام ؓ کے درمیان تشریف فرما رہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ۲۳؍مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صفر کا مہینہ آیا، لیکن کبھی ایک مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منحوس نہیں قرار دیا، بلکہ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ گزشتہ حدیث ِ پاک جو ابھی ہم نے پڑھی ہے اُس میں دوسری بات جس کا آپ ﷺنے شدت سے انکار کیا ہے ، وہ ہے بد شگونی لینا ، کسی چیزدن مہینہ یا فرد کو منحوس سمجھنا ہے ۔

ہر مسلمان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض چیزوں کو مفید بنایا ہے اور بعض چیزوں کو نقصان دہ لیکن کسی چیز میں ہر گز کوئی نحوست نہیں رکھی ۔ مختلف اشیاء کے منحوس ہونے یا ان سے بد شگونی لینے کا عقیدہ رکھنا مشرکین مکہ کا طرز عمل ہے۔ رسول اللہ ﷺکے دور میں مختلف قسم کی بد شگونیاں لی جاتی تھیں جن میں سے تین کا تذکرہ آپ ﷺنے گزشتہ حدیث میں کیا ہے کہ ان دونوں کی مطلقاً کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

پھر جس بات کی رسول اللہ ﷺنے واضح طور پر تردید فرمائی وہ ماہ صفر کو منحوس سمجھنا ہے ۔ چونکہ عرب محرم میں جنگ و جدال کو حرام سمجھتے تھے ، جیسا کہ ہماری شریعت مطہرہ کے مطابق بھی یہ حرمت والا مہینہ ہے تو عموماً محرم گزرنے کے بعد ان کے ہاں لڑائی جھگڑوں اور جنگ و جدال میں شدت آجاتی تھی  لیکن وہ اپنا قصور ماننے کے بجائے ماہ صفر کو منحوس قرار دیتے تھے کہ اس میں قتل و غارت اور خون ریزی کا بازار گرم ہو جاتا ہے  جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں۔

ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ مذکورہ بالا تمام امور سے بد شگونی لینے سے باز آجا ئے کیونکہ بد شگونی کو رسول اللہ ﷺنے شرک قرار دیا ہے ۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے :

الطیرۃ شرک ، الطیرۃ شرک (سنن ابی داؤد)

’’ بد شگونی شرک ہے ، بد شگونی شرک ہے ‘‘

ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ یہ عقیدہ اپنا لے کہ کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر بذات خود بھلائی رکھتی ہے نہ برائی ، بلکہ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے ۔ آل فرعون بھی اپنے اوپر نازل ہونے والے عذابِ الٰہی کو موسیٰ علیہ السلام کی نحوست سمجھتے تھے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’ جب ان پر خوش حالی آتی تو کہتے : یہ ہمارے ہی لیے ہے اور اگر انہیں بد حالی آلیتی تو اسے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نحوست ٹھہراتے ہیں ۔ خبردار ! ان کی نحوست اللہ کے ہاں ( علم میں ) ہے لیکن ان میں سے اکثر (لوگ)نہیں جانتے ۔‘‘(سورئہ الاعراف۔۱۳۱)

حضرت عکرمہ ؒبیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓکے پاس بیٹھا تھا ، اچانک ایک پرندہ چیختا ہوا گزرا تو لوگوں میں سے ایک شخص نے اس سے شگون لیتے ہوئے کہا کہ اس میں خیر ہے اور اب بھلائی آئے گی تو حضرت ابن عباس ؓنے فرمایا :

ما عند ھذا،لا خیر ولا شر (القرطبی)

’’ اس پرندے کے پاس کوئی خیر ہے نہ کوئی شر ۔‘‘

لوگوں کے توہمات میں سے ایک ستاروں کے انسانی زندگی پر اثر انداز ہونے کا عقیدہ ہے ۔ اور لوگوں کی اسی دلچسپی کے باعث علم نجوم صرف لوٹ کھسوٹ کا دھندا بن کر رہ گیا ہے ۔ لوگ نِت نئے طریقوں سے سادہ لوح عوام بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لیکن دین سے بے خبر لوگوں کو بھی اپنے جال میں پھنسا کر انہیں لوٹتے ہیں ۔ وہ انہیں سنہری قسمت سازی کے سبز باغ دکھاتے ہیں اور یہ بچارے پکے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گر پڑتے ہیں۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی قسمت سازی میں ستاروں کا کوئی دخل ہے نہ وہ اس کام کے لیے بنائے گئے ہیں ۔

ماہِ صفر کی آمد آمد ہے اور بہت سے احباب نے اس مہینے میں شادی اور دیگر کاموں کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا ہے ‘ اسی لیے اس موضوع پر یہ چند باتیں عرض کر دی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو مسلمان ‘ کالی بلی ‘ الّو ‘کوا ‘ جھاڑو اور اپنے سائے سے بھی ڈرے گا وہ بے چارہ دشمنان ِ اسلام کا کیا مقابلہ کر سکے گا ۔ ایسا مسلمان تو وقت آنے پر کفار کے لیے تر نوالہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ اس لیے ہمیں ایسے فالتو ‘ بے ہودہ اور بے اصل خیالات سے اپنے دلوں کو پاک رکھنا چاہیے ۔

اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو دین کی صحیح سمجھ اور اُس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)

اپنا تبصرہ بھیجیں