تحریر : محمد رضوان سعید نعمانی
ماہ صفر المظفر اسلامی کیلنڈر کے مطابق دوسرامہینہ ہے ، اسلام میں بعض مہینوں اور بعض دنوں کو دوسرے بعض پرفضیلت وفوقیت تو حاصل ہے اور برتری کا تصور بھی موجود ہے، لیکن کسی مہینے یا دن کے منحوس ہونے یا اس میں آفات وبلائیں نازل ہونے کاخیال ہر گز نہیں پایاجاتا۔ اس سے پہلے کہ قرآن وسنت کے حوالے سے اس ماہ کی خیر وبرکت یا نحوست کا جائزہ لیا جائے ،قارئین کی خدمت میں اس کی وجہ تسمیہ پر روشنی ڈالی جاتی ہے ، جوکافی حد تک اصل بات کے سمجھنے میں معاون ہوگی۔
وجہ تسمیہ:
لفظ ِ”صفر” عربی زبان کا لفظ ہے جوکہ تین حروف ( ص ، ف ،ر) کامرکب ہے ۔ اس کے معنی ہیں “خالی ہونا” ،”پیلاہونا” ۔ چنانچہ ان معانی کی رعایت رکھتے ہوئے اس سے بہت سی چیزیں موسوم ہیں چند ایک کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ہے ۔
(1) ایک بیماری کو صفر کہا جاتا ہے، جس میں انسان کے پیٹ میں پانی جمع ہوجاتاہے اور چہرہ زرد پڑجاتاہے۔
(2) ایک مہینے کا نام بھی ” صفر “ہے اور یہ نام کئی وجوہ کی بناپر رکھا گیا ۔
(ا) اس مہینےمیں لوگ گھر وں سے اناج اکٹھا کرنے کے لیے نکلتے تھے، جس کی وجہ سے ان کے گھر خالی ہوجاتے ۔
(ب) بعض اہل لغت کا خیال ہے :” اس ماہ اہل مکہ انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے مکہ سے باہر جاتے تھے ،جس سے شہر مکہ خالی رہ ہوجاتاتھا۔
(ج) اہل مکہ زمانہ اسلام سے قبل چار مہینوں کا احترام کرتے تھے ، ان میں کسی قسم کی لوٹ کھسوٹ قتل وغارت سے پرہیز کرتے تھے ان میں سے ایک مہینہ “محرم الحرام ” کاہے اس ماہ کے اختتام پذیر ہوتے ہی وہ قبائل سے جنگ کے لیے گھروں سے نکل کھڑے ہوتے تھے ۔ اس مناسبت سے اس ماہ کو “صفر” کہا گیا ۔
ماہ صفر المظفر میں پائی جانے والے بعض توہمات وبدعات :
زمانہ اسلام سے پہلے عرب میں اس ماہ کے حوالے سے بدشگونیاں پائی جاتی تھیں ، اسے منحوس جان کر اس سے بد فالی لینا عام تھا،کفار کا اس طرح توہمات میں پڑنا دولت ِ اسلام سے محروم ہونے کی بنا پر باعثِ تعجب نہیں ۔مگرافسوس صد افسوس آج مسلمانو ں میں بھی اس طرح کے گمراہ عقائدرکھنے والوں کی بہتات ہے ، جو اس ماہ کو منحوس خیال کرتے ہوئے اس میں شادی بیاہ ، نیا کاروبارشروع کرنے اور ابتدائی تیرہ راتوں میں میاں بیوی کے ملاپ سے اجتناب کرتے ہیں ،چنانچہ ذیل میں ان باطل نظریات وبدعات کا ذکر کیا جاتا ہے۔
- اس ماہ میں بلائیں کثرت سے نازل ہوتی ہیں، بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ایک سال میں دس لاکھ اسّی ہزار بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ان میں صرف اس مہینہ (صفر) میں نولاکھ بیس ہزاربلائیں نازل ہوتی ہیں۔
- حضرت محمدﷺ کو اس مہینہ میں مرض الوفات پیش آیا ، اس لیے یہ منحوس ہے۔
- یہ مہینہ رحمتوں اور برکتوں سے خالی ہے ، اس لیے منحوس ہے۔
- ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ماہ صفر میں ایک آواز پیدا ہوگی ،جس سے ماہ ربیع الاول میں قبائل جھگڑیں گے ، پھر جمادی الاول ، جمادی الثانی اور رجب کے درمیان عجیب وغریب چیزیں رونما ہوں گی ۔
- بغرض صدقہ وخیرات چھولے بانٹنا تاکہ اس ماہ کی نحوست سے محفوظ رہیں۔
- نئے شادی شدہ جوڑوں کو اس ماہ کی پہلی تیرہ تاریخوں میں ایک دوسرے سے جدا رکھنا۔
- محرم کے مہینے میں شادی بیا ہ اور خوشی کا،کام اس لیے نہ کرنا کہ اس میں حضرت حسین رضی اللہ کی شہادت ہوئی ۔ صفر کے مہینے میں اس لیے نہ کرنا کہ اس میں حضرت حسن رضی اللہ کا انتقال ہوا۔
- اس ماہ کی تیرہ تاریخ کو گھونگیاں تقسیم کرنا۔
آخری بدھ سے منسوب بعض مخصوص بدعات :
- روزہ کا اہتمام کرنا۔
- مخصوص طریقہ پر چاشت کے وقت نوافل کا اہتمام کرنا۔
- عمدہ عمدہ کھانے تیار کر کے دوسروں کو کھلانا۔
- چُوری /چری کا اہتمام کرنا(ایک خاص قسم کا میٹھا کھانا ہے)۔
- اس دن گھروں سے پکنک کی غرض سے شہر کی آلودگی سے دور کسی پارک ،کھیتوں یا کسی خوشگوار جگہ اس لیے جانا کہ اس دن آپ ﷺ کو بیماری سے افاقہ ہواتھا،تو آپ ﷺ سیروتفریح کے لیے مدینہ طیبہ کے مضافات میں نکلے تھے۔
حالانکہ صحیح روایات اس کے بالکل بر عکس ہیں کہ اسی دن آپ ﷺ مرض الموت میں مبتلاء ہوئے ، مشہور سیرت نگار علامہ سید سلمان ندوی لکھتے ہیں :” زیادہ تر روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کل تیرہ دن بیمار رہے، اس بنا پر اگر تحقیقی طور سے متعین ہو جائے کہ آپ نے کس تاریخ کو وفات پائی تو تاریخ آغاز مرض بھی متعین کی جاسکتی ہے۔ایام علالت کی مدت آٹھ روز تو یقینی ہے ، عام روایات کی رو سے پانچ دن اور بھی ہیں اور یہ قرآئن سے بھی معلوم ہوتا ہے ۔ اس لیے تیرہ دن مدت علالت صحیح ہے۔ اس حساب سے علالت کا آغاز ماہ صفر کے آخری بدھ سے ہوتا ہے۔(حاشیہ سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم ،مولانا شبلی نعمانی:104/2 ، ط: ادارہ اسلامیات)
- مزووروں کا،کارخانہ کےمالکان کو اس دن کی چھٹی کرنے اور میٹھائی کھلانے پر مجبور کرنا ۔
- آیات سلام (سلام ٌقولاًمن رب رحيم سلامٌ على نوحٍ في العالمين سلامٌ على إبراهيم ،سلامٌ على موسى وهارون ،سلامٌ على المرسلین سلامٌ عليكم طبتم فادخلوها خالدين اورسلامٌ هي حتى مطلع الفجر)کسی خطاط سے لکھواکر پانی میں گھو ل کر اس نیت سے پینا کہ میں اس ماہ میں نازل ہونے والی بلاؤں سے بچ جاؤں گا۔
- آخری بدھ کو منحوس قراردینا۔
- ماہ صفر کے اختتام کی خبر دینے والے کو جنتی سمجھنا ۔
صفر کے متعلق بعض من گھڑت ومو ضوع روایات :
دشمنان اسلام نے دین اسلام کے شفاف چہرے کو مسخ کرنے کے لیےبے شمار ہتھکنڈے استعمال کیے ، سب سے خطرناک یہ کہ اپنی خرافات کو مسلمانوں میں رواج دینے کےلیے رسول اللہﷺ کی طرف من گھڑت باتیں منسوب کرکے جہنم کواپنادائمی ٹھکانہ بنا لیا۔ محدثین کرام کو اللہ جزائے خیردے كہ انہوں نے دن رات ایک کرکے جھوٹ کو آپ ﷺ کی احادیث سے ایسے نکال باہر کیا جیسے مکھن سے بال ۔ذیل میں ماہِ “صفر المظفر” کے بارے میں چند من گھڑت احادیث ملاحظہ کیجیے :
- “جس نے مجھے صفر کے اختتام پذیر ہونے کی خوشخبری دی تومیں نےاسے جنت کی بشارت دی “۔(الموضوعات الكبري : 1/337)
- “مہینہ کا آخری بدھ سراسرنحوست ہے”(كشف الخفاء : 1/18)
- ” صفر میں ایک آواز پیدا ہوگی ،جس سے ربیع الاول میں قبائل جھگڑیں گے ، پھر جمادی الاول ،وجمادی الثانی اور رجب کے درمیان عجیب وغریب چیزیں رونما ہوں گی “۔(اللآلی المصنوعۃ للسیوطی : 2/322)
یہ اور اس طرح کی دیگر بدعات ورسومات کی قرآن وسنت میں کوئی حقیقت نہیں محض دشمنان اسلام (کمزور عقیدہ مسلمان)کی سازشوں سے ان خرافات کو دین اسلام کا حصہ بناکر اس کے بے داغ چہرہ کو داغ داغ کرنے کی ناپاک جسارت ہے۔
آپ ﷺ علیہ السلام کا صفر المظفر میں بیمار ہونا عقل کے تناظر میں :
صفر المظفر کو اس لیے منحوس قراردینا کہ اس میں آپ ﷺکومرض الوفات پیش آیا ،توپھر اس سے زیادہ منحوس تو ماہ “ربیع الاول “ہونا چاہیے کہ اس میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی ۔ماہ محرم کو بھی منحوس ہونا چاہیے کہ اس میں خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اسی پر بس نہیں بلکہ رمضان المبارک جیسا بابرکت و فضیلت کامہینہ بھی منحوس ہونا چاہیے کہ اس میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نےشہادت پائی۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو کوئی دن بھی نحوست سے خالی نہیں ہے کسی نہ کسی بڑی ہستی کا انتقال ہفتہ کے سات دنوں میں کسی دن ضرور ہواہے۔
بدشگونیاں اور توہمات قرآن کے آئینہ میں :
قرآن کریم کی روشنی میں “بد شگونی و بد فالی ” کفار کا نظریہ وعقیدہ ہے، دامنِ اسلام اس قسم کی خرافات سے پاک ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں بارہا سابقہ کافر قوموں کے واقعات میں اس بات کا تذکرہ ملتاہےکہ وہ اپنے اوپر آنے والی مصائب وآلام کا ذمہ داروقت کے انبیاء اور ان کے پیروکاروں کو ٹھہراتے کہ یہ سب تمہاری نحوست سے ہوا ہے۔ذیل میں چند ایک آیات قرآنی کامفہوم ملاحظہ کیجیے:
- موسی ٰ علیہ السلام کی قوم “بنی اسرائیل” پر جب اللہ کی جانب سے انعام واکرام کی بارش ہوتی تو کہتے یہ سب ہماری بدولت ہے،لیکن جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی تو اسے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیرو کاروں کی نحوست قرار دیتے
- اللہ پاک نے ان کے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:خبردار! یہ نحوست اللہ کی جانب سے ان کے برے اعمال کی بدولت ہے۔(مفہوم سورۃ الاعراف آیت : 131)
- قومِ ثمود نے بھی یہی کہا : ” اے ثمود (علیہ السلام ) ہم تجھے اور تیرے پیرو کاروں سے بد شگونی لیتے ہیں “(سورۃ النمل،آیت : 47)ان کے نظریہ کی بھی اللہ پاک نے انہی الفاظ میں تردید کی ۔
- عیسیٰ علیہ السلام نے اہلیان “انطاکیہ” کی طرف تبلیغ دین کے لیے اپنے نائب بھیجے تو اہل انطاکیہ نے ان کی بات نہ مانی ، ان کوزدو کوب کیا اور یہ کہا کہ ہم تم سے بد شگونی لیتےہیں یعنی تمہارا یہاں آنا ہمارے لیے نحوست وبے برکتی کا باعث ہے ۔(مفہوم سورۃ یسین ،آیت : 18)
مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہواکہ بد فالی کرنا اور کسی چیز کو نحوست جانناباطل عقیدہ ہے، اسلام کاعقیدہ ونظریہ، یہ ہے کہ مصائب وپریشانیاں اور بھلائیوں کا پیش خیمہ تقدیرِ الہٰی اور اچھے یابرےاعمال ہیں،ذیل میں بطور نمونہ چند آیات (ورنہ قرآن توعقیدہ توحید سے بھر اہواہے) کامفہوم ملاحظہ کیجیے :
- “آپ کو کو ئی بھی راحت آسائش یا بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اللہ کے حکم سے ہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے (اپنےاعمال) کی وجہ سے ہے”۔(سورۃ النساء ، آیت : 79)
- “اگرکسی بستی وعلاقہ کے باشندے ایمان لے آئیں اور اللہ سے ڈرنے لگیں تو ہم ان پر زمین وآسمان سے رحمتوں کے خزانے کھولدیں گے “۔(سورۃ الاعراف ،آیت : 96)
- “اے پیغمبر کہدیجیے ہمیں صرف اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا اللہ جل شانہ نے ہماری تقدیرمیں ازل سے لکھدیا ہے ،وہی ہمارا حامی وناصر ہے ، اسی ذات پر مومنوں کو بھروسہ کرنا چاہیے”(سورۃ التوبۃ ، آیت : 51)
- “جس نے نیک کام کیا تو اپنے فائدہ کے لیے کیا ،اور جس نے برائی کی تو اس کا وبال اسی پر ہے کیونکہ اللہ تعالی بندوں پر ظلم نہیں کرتا”(سورۃ فصلت ،آیت : 46)
- “زمین اورسمندر میں فساد ظاہر ہونا انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے”(سورۃ روم ،آیت : 41)
ماہ صفر المظفراحادیث کی روشنی میں :
رسول اللہ کے اقوال وافعال سے مذکورہ بالا خرافات وتوہمات کا باطل ہونا روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ، اس لیے کہ آپ ﷺ نے حضرت “خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا” سے اسی ماہ نکاح کیا ، انہی کے بطن سے آپ ﷺ کی تمام اولاد ہے سوائے آپ کے بیٹے حضرت ” ابراہیم ” کے کہ وہ حضرت “ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنہا” کے بطن سے تھے۔نیز آپ ﷺ کو بہت سی فتوحات اسی مہینہ میں ہوئیں جن میں خیبر کی فتح سر فہرست ہے ۔ایسے ہی آپ ﷺ نے اپنے اقوال سے ان عقائد کی تردید کی۔ صحیح بخاری میں ہے : “لاعدوی ولاطیرة ولا هامة،ولاصفر“(کوئی بیماری کسی مریض سےدوسرےکو نہیں لگتی ، بد شگونی اور ہامہ کی کوئی حقیقت نہیں اور صفر کا مہینہ منحوس نہیں) ہامہ عربوں کے وہم میں ایک پرندہ ہے جو مقتول کا قصاص نہ لینے تک صدا لگاتارہتاہے کہ مجھے سیراب کرو۔
صحيح مسلم کی حديث ہے :” جس نے ہمارے دین کے معاملے میں نیا کام شروع کیا( جو آپﷺ ،خلفاء اربعہ اورصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے ثابت نہیں) تو وہ مردودہے۔ (صحيح مسلم : 5/132)