مناظرانہ و معاصرانہ چپقلش !

جہانگیر کی ملکہ نورجہاں ایرانی شیعہ تھی ِ وہ چاہتی تھی کہ شیعیت کو ہند  کا سرکاری مذہب  قرار دے دیا جائے  جہانگیر نے ملکہ کے اصرار پر مجبور ہوکر اعلان کیا کہ اہلسنت اور اہل تشیع کا مناظرانہ کرایا جائے جو جیت جائے اس کا مذھب سرکاری طور پر نافذ کر دیا جائے ـ ملکہ نے ایران سے ایک بہت بڑے عالم ملا شوستری کو مناظرے کے لئے بلوا لیا ـ

ادھر اہلسنت  بھی سر جوڑ کر بیٹھے کہ کیا کیا جائے ؟ پہلے محدث عبدالحق دہلوی کو نامزد کیا گیا مگر ان کی طرف سے ضعیف العمری کا عذر پیش کئے جانے کے بعد ملا دوپیازہ نے جو کہ بہت بڑے عالم تھے ( مگر اب عام طور پر لطیفوں میں استعمال ہوتے ہیں ) انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ میرے اوپر چھوڑ دو ـ اللہ سب بھلی کرے گا !

وقت مقررہ پر دونوں فریق دربار میں حاضر ہوئے ، مناظرہ شروع ہواتو ملا دو پیازہ نے پوچھا کہ پہلے سوال کون کرے گا؟

ایرانی عالم نے کہا کہ تم پہلے سوال کرو۔

ملا دو پیازہ نے پوچھا ،، ابوبکرؓ کون تھے ؟

ایرانی عالم نے کہا کہ اسلامی تاریخ کے ایک حکمران تھے۔

ملا دوپیازہ نے دوسرا سوال پوچھا عمرؓ کون تھے ؟

ایرانی عالم نے جواب دیا کہ اسلامی تاریخ کے ایک حکمران تھے۔

ملا دوپیازہ نے تیسرا سوال کیا عثمانؓ کون تھے ؟

ایرانی عالم نے جواب دیا کہ اسلامی تاریخ کے ایک حکمران تھے ۔

مگر غصے سے اس کا حال براہورہاتھا  وہ سمجھتا تھا کہ اس سے اس کے مقام و مرتبہ کے مطابق بڑے فلسفیانہ سوالات ہوں گے   جبکہ اس سے پہلی کلاس کے بچے والے سوالات کر کے اس کی انسلٹ کی جا رہی  تھی  اس نے سوچا کہ چلو اس کے بعد جب علی علیہ السلام کے بارے میں پوچھے گا تو سارا غصہ نکال لوں گا اور ان کی فضیلت و مقام و مرتبہ نیز وصی کے معاملے کو بھی سمیٹ لونگا 

خواجہ سلیم چشتی کون تھے ؟

ملا دو پیازہ نے اگلا سوال پوچھا

 ملا دو پیازہ کا سوال سنتے ہیں ایرانی عالم کا دماغ بھک سے اڑ گیا غصے کے عالم میں بےساختہ اس کے منہ سے نکلا۔

ایں حرامزادہ کیست ؟

یہ حرامزادہ کونہے  ؟( میں تو علیؓ کے بارے میں سوال کی توقع لگائے بیٹھا تھا )

بس ایک لمحے کی بات تھی جہانگیر کی تلوار لہرائی اور ایرانی عالم کا سر اس کے اپنے قدموں میں پڑا تھا ( دوسری روایت کے بقول ہاتھی کے پاؤں کے نیچے رکھ کر ان کو کچل دیا گیا !

خواجہ سلیم چشتی وہ ہستی تھی جن کے نام پر جہانگیر کا نام سلیم رکھا گیا تھا اور جہانگیر ان کو باپ سے زیادہ چاہتا تھا  ان کے دربار پر منت مان کر ہی  مغل اعظم نے بیٹا مانگا تھا اور خواب میں اس شرط کے ساتھ بشارت دی گئ تھی کہ نام میرے نام پر رکھنا جو کہ رکھا گیا !

ملا دوپیازہ کو پتہ تھا کہ سوالات کے Sequence کو دیکھتے ہوئے ایرانی عالم کی کیا توقع ہو گی اور جب علیؓ کی جگہ نامعلوم شخص کے بارے میں سوال ھو گا تو اس کا رد عمل کیا ھو گا اور اس رد عمل پر جہانگیر کا رد عمل کیا ہو گا  ایک ایک کڑی اپنی جگہ بیٹھتی چلی گئ اور سرکاری مذھب والا معاملہ بس وہیں  کا وہیں  دب کر رہگیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں