تحریر : محمد رضوان سعید نعمانی
تعلیم متاعِ عزیز اور لازوال دولت ہونے کے ساتھ ساتھ لاثانی زیوربھی ہے ،جو اس سے آراستہ وپیراستہ ہوتا ہے یہ اسے لازوال کردیتاہے ۔صاحبِ علم تو دنیا میں چند دن کا مہمان ہوتا ہے ،جبکہ اس کا یہ لاثانی زیور اسے صدیوں زندہ رکھتاہے ۔تعلیم ہی نے انسان کواپنادائرہ کار بتلایا ،اسی جاوداں زینہ سے نسلِ انسانی نے ترقی کی وہ منازل طے کیں جسے ان کے آباء واجدادشرمندہ تعبیر نہ کرسکے ۔ تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ تعالی نے کائنات کے چشم وچراغ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرتے ہی تعلیم کے زیور سے آراستہ فرماکرانہیں فرشتوں پر فضیلت بخشی(سورۃ البقرۃ : آیت 31 ، 32 ، 33 ، 34)۔آخری نبی پر آخری آسمانی تعلیمات کی ابتداء ہی “اقراء” کے الفاظ سے کر کے رہتی دنیا تک انسانوں کو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کردیا(سورۃ العلق: آیت 1)۔ بقول عربی شاعر :
ليس اليتيم الذي قد مات والده
إن اليتيم يتيم العلم والأدب
ترجمہ : یتیم وہ شخص نہیں ہے جس کا باپ مرگیا ہوحقیقی یتیم تو وہ ہے جو علم وادب سے محروم رہاہو۔
ہرچیز سے نفع اٹھانے کے کچھ اصول ،قوانین اور ضابطے ہوتے ہیں اگر ان کو نظر انداز کردیاجائے توبجائے فائدہ کے نقصانات کا سامنا کرناپڑتاہے ۔ہمارے معاشرے میں تعلیم جیسی لازوال دولت بھی اسی چیز کا شکار ہوچکی ہے جس کی وجہ سےآج اعلی مقاصد تعلیم:انسانیت کی جگہ حیوانیت ، ترقی کی جگہ تنزلی ،اعلی اخلاق واقدارکی جگہ گھٹیا حرکات ،اچھے معاشرے کی جگہ برا معاشرہ،غمخواری وغریب پروری کی جگہ دولت پروری کا راج دُلاَراہے ۔
ایساکیوں ہے ؟ایک چیزجو ظاہر میں سراسر مفید ہے اس کے نتائج اتنے بھیانک کیسے ہوسکتےہیں؟ دو لفظوں میں جواب دیاجائےتویہ کہ “ہمارے نطام تعلیم اورنصاب تعلیم میں بنیادی طور پر چند خرابیاں ہیں” جنہیں تقریبا سبھی جانتے ہیں،لیکن اس کی طرف ارباب اقتدار توجہ نہیں دے پارہےاگر ہے بھی تو اصلاح کی فکر سے تہی دامن ہے ۔
- پہلی بنیادی خرابی “طبقاتی نظام تعلیم “ہے ۔مالدار طبقہ کے بچوں کے لیے کونیونٹ،انگریزی میڈیم ،کیمبرج اور آکسفورڈ اسکول سسٹم متعارف کرایا گیا ہے جہاں دنیا جہاں کی سہولتیں ان کو مہیا کی جاتی ہیں ۔مالی لحاظ سے متوسط طبقے کے بچوں کے لیے پرائیویٹ اسکولز کو رواج دیا گیا جہاں متوسط آلات تعلیم میسر ہوتے ہیں ۔رہا غریب طبقہ تو ان کےبچوں کے لیے گورنمنٹ اسکولزہیں جہاں اعلی آلاتِ تعلیم تودرکنار انسانی زندگی کے گذران کے اسباب پانی وبجلی تک بمشکل مہیا ہوتےہیں۔
نتائج سب کے سامنے ہیں کہ معاشرہ تین طبقات میں بٹ چکا ہے ۔کسی انسان کو دوسرے کے دکھ درد سے سروکار نہیں ۔کلیدی عہدوں پر باصلاحیت لوگوں کی رسائی ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہو گئی ہے ۔معاشی لحاظ سے بھی امیر امیرتر ہوتاجارہا ہے اور غریب دن بدن روٹی کپڑا مکان کو ترستاجارہاہے۔اس سب کی اصلاح تب ہی ممکن ہے جب طبقاتی نظام تعلیم کی حوصلہ شکنی کی جائے گی اور امیر وغریب کے بچے ایک ہی ادارے میں ملک وقوم کے ساتھ مخلص ہوکر تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں گے۔
- دوسری بنیادی خرابی “تعلیم کا ذریعہ تجارت ہونا ہے” ۔آج تعلیم کا مقصداچھاانسان بن کر مثالی معاشر ے کی تعمیر اور ملک وقوم کے لیے رجال کا ر مہیا کرنانہیں،بلکہ اکثر پڑھنے اور پڑھانے کےمیدان سے وابستہ افراد کی ترجیح ارادی یا غیر ارادی طور پرصرف اچھی تنخواہ والی نوکری تلاش کرکےاپنی معیشت کو بہتر کرناہے ۔جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ باصلاحیت غریب طبقہ اس نایاب زیور سے محروم ہے ۔بقول شاعر مشرق علامہ اقبال
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دوکف جو
- تیسری بنیادی خرابی “نصاب تعلیم کی نامناسب تشکیل ہے” ،خصوصا مختلف غیر ملکی فاؤنڈیشن کے زیر نگرانی اور کونیونٹ اسکولز کا نصاب تعلیم سراسر ملک وقوم کے حق میں زہر قاتل ہے ۔نصاب تعلیم ریڑھ کی ہڈی ہے ،ملک وقوم کے ڈھانچے کا وجود سراسر اسی کا مرہون ِ منت ہے ۔نصاب تعلیم سے نئی نسل کی آبیاری کی جاتی ہے ۔جیسا نصاب تعلیم ہوتاہے ویسے ہی نتائج نمودار ہو تے ہیں ۔ذیل میں نصابِ تعلیم کی بنیادی خامیوں کو اجاگر کیا جاتاہے،تاکہ سنجیدگی سے ان پر غوروفکر کرکے اس کا متبادل نصاب تعلیم ملک وقوم کو مہیا کیاجائے جو ملکی وملی ضروریات کو پورا کرسکے۔
(ا) تعلیم کا بنیادی مقصد “روحانی اور ثقافتی اقدار کی تعمیر کرنا ہے” ۔یعنی مذہب اور وطن کی روایات کو زندہ کرنا جس کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے ۔لارڈ میکالے نے اس ریڑھ کی ہڈی پر کاری ضرب لگاتے ہوئے برطانیہ کو یہ تجویز پیش کی کہ ہندوستانیوں کانصاب تعلیم تبدیل کرکے اس کی جگہ ایسانصاب تعلیم متعارف کرایاجائے جو ان کو ان کے مذہب اور ثقافت سے دور کردے ۔
(ب) تعلیم کا دوسرابنیادی مقصد “خود اعتمادی اور اپنے سماج ومعاشرے کو دوسری اقوام کے معاشرےپر فوقیت دینا ہے” ۔لارڈ میکالے نے پرانے نصاب تعلیم میں تبدیلی کرکے ہندوستانیوں کے ذہن میں مغرب اور انگریز ی سماج کی عظمت وفوقیت کا بھوت ان پر سوار کردیااور ہم یہ سمجھ بیٹھے کہ ترقی کے پہلے زینے پر ہماراقدم تب ہی جم سکتاہے جب ہم انگریز اور مغرب کے قالب میں ڈھل جائیں گے۔
(ج) تعلیم کا تیسرابنیادی مقصد”اپنے آپ کو اوراپنے آباء واجداد کو پہچانناہے”۔ ہم کون ہیں ؟ کس کی نسل ہیں ؟لارڈ میکالے نے ہندوستانی مسلمانوں کے پرانے نظام تعلیم سے ہماری تاریخ ساز سماجی ومعاشرتی اور سائنسی شخصیات کے احوال اور ان کے کارناموں کو نکال کر اس کی جگہ مغرب کی سماجی ومعاشرتی اورسائنسی شخصیات کولاکھڑاکیا۔جس کالازمی نتیجہ یہ نکلاکہ ہماری نسل کویہ معلوم نہیں کہ مغرب کی ترقی کی عمارت ہمارے ہی وضع کردہ اصولوں پر استوارہے۔صر ف اسی پر بس نہیں ہم تواپنی عزت نفس اورآبائی کلچر کو بھی بھول چکے ہیں ۔
(د) تعلیم کا چوتھا بنیادی مقصد “ملک وقوم کی ترقی کے لیے امانتدار وقابل اعتمادرجال کار پیداکرنا اور ملی روایات کو برقرار رکھناہے “۔جبکہ ہمارے تمام اسکولز کانصاب تعلیم ان مقاصد سے یکسر خالی ہے ۔ہمارے سلیبس میں شامل مضامین میں سے 90 فیصد کا تعلق لہو ولعب اور لغویات سے ہے جس کے پس پردہ نئی نسل کو فضول کاموں میں وقت صرف کرنے پر اکسانے کے سوا کچھ نہیں۔ بقول کاشف حفیظ صدیقی:
“ہم نے کونیونٹ اسکولوں میں پڑھائی جانے والی مطالعہ پاکستان ،اردو اور اسلامیات کی کتب کا جائزہ لیا ،اور پھر اس کا موازنہ سرکاری نصاب کے ساتھ کیا اور دو ڈھائی درجن کتب کے مطالعے کے بعد جاکر معلوم ہواکہ دراصل غلط بیانی ،جھوٹ ،تاریخ کو مسخ کرنا،اکابر امت کی توہین ،دوقومی نظریے کے خلاف سازش اور نظریہ پاکستان کی نفی تو ٹنوں کے حساب سے ان کتب میں موجود ہے ۔جن کوپڑھنے کے بعد حیرانی ہوتی ہے کہ اس طرح کی کتب آخر کیسے ہمارے نصاب میں شامل ہیں ۔ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کے نصاب کے بعد نہ توکوئی اچھا مسلمان ان تعلیمی اداروں سے برآمد ہوگااور نہ ہی بہتر پاکستانی البتہ فیشن شوز ماڈلنگ کے لیے کھیپ در کھیپ موجود ہوگی ،جو مکمل طورپر مغرب کے رنگ میں رنگی ہوگی”۔
اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ہرمسلمان پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ ایسا متبادل نصاب ِتعلیم وضع کرنے کی جد وجہد کرے جو مذکورہ بالابنیادی خامیوں سے پاک ہوتاکہ نسل ِنواپنے مذہب ،ثقافت اورآباءواجداد کے کارناموں سے روشناس ہو کر اخوت وہمدردی ،خود اعتمادی ،امانت ،دیانت ، صداقت اور شرافت جیسے اعلی
صفات کی حامل بن کر اپنے پکے مسلمان ہونے اور ملک وملت کاوفادار سپاہی ہونے کا ثبوت دے۔