معراج کا روزہ اور شب معراج کی فضیلت

فتویٰ نمبر:4056

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!

السلام علیکم!

27 رجب کو شب معراج ہونے کا یقین رکھنا اور اس دن کا روزہ رکھنا، یہ بدعت ہے؟

الجواب حامدا ومصلیا

وعلیکم السلام! 

27 رجب کے شب معراج ہونے میں محدثین اور مؤرخین کا اختلاف ہے۔ پھر قرآن وحدیث اور صحابہ وتابعین میں سے اس رات میں اس مخصوص عبادت کے بارے میں کہیں بھی منقول نہیں ہے بلکہ محدثین اور فقہاء نے اس کی بھر پور تردید فرمائی ہے۔ 

علامہ محی الدین امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے : 

“27 رجب اور شعبان کی پندرہویں رات کی مخصوص نمازیں سنت نہیں، بلکہ ناجائز اور بدعت ہیں”۔

حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

” اس شب کے لیے خصوصی نوافل کا اہتمام کہیں ثابت نہیں ،نہ کبھی حضور صلی الله علیہ وسلم نے کیا، نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے، نہ تابعین عظام رحہم اللہ نے کیا۔ علامہ حلبی تلمیذ شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ نے غنیتہ المستملی، ص:411 میں، علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے الجر الر ائق شرح کنز الد قائق ،ج:2، ص: 56، میں، علا مہ طحطا وی نے مراقی الفلاح ،ص:22 میں، اس رواج پر نکیر فرمائی ہے اور اس کے متعلق جو فضائل نقل کرتے ہیں ان کو ردکیا ہے”۔

(فتاویٰ محمودیہ: 3/284،ادارہ الفاروق کراچی)

27 رجب کو تخصیص کے ساتھ روزہ رکھنا اور اس کا التزام درست نہیں ہے، اس کی جو فضیلت عوام میں مشہور ہے کہ اس روزہ کا ثواب ہزار روزے کے برابر ہے یہ ثابت نہیں ہے؛ اس لیے اس دن کے روزہ کو زیادہ ثواب کا باعث یا اس دن کے روزہ کے متعلق سنت ہونے کا اعتقاد صحیح نہیں ہے، علماءِ کرام نے اپنی تصانیف میں اس کی بہت تردید کی ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ”تبیین العجب بما ورد في فضل رجب“کے نام سے اس موضوع پر مستقل کتاب لکھی ہے، جس میں انہوں نے رجب سے متعلق پائی جانے والی تمام ضعیف اور موضوع روایات پر محدثانہ کلام کرتے ہوئے سب کو باطل کردیا ہے۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ رجب کے مہینے میں “تبارک” اور 27 رجب کو روزہ رکھنے کے متعلق فرماتے ہیں:

“اس امر کا التزام نا درست اور بدعت ہے”۔

(فتاویٰ رشید یہ مع تا لیفات رشید یہ،ص: 148)

حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

“ستائیسویں رجب کے روزے کو جو عوام ہزارہ روزہ کہتے ہیں اور ہزار روزوں کے برابر اس کا ثواب سمجھتے ہیں، اس کی کچھ اصل نہیں ہے”۔

(فتاوٰی دار العلوم مد لل و مکمل: 6/491۔ 492)

حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

” ماہ رجب میں تاریخِ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وارد ہوئی ہیں، لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہ صحت کو نہیں پہنچیں”۔ 

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”ماثبت بالسنۃ“ میں ذکر کیا ہے:

“بعض بہت ضیعف ہیں اور بعض موضوع (من گھڑت) ہیں”۔

(فتاوٰی محمودیہ، 3/281،ادارہ الفاروق کراچی)

حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

” 27 رجب کے روزہ کا کوئی ثبوت نہیں”۔(سات مسا ئل صفحہ:5)

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِخلافت میں بعض لوگ رجب کو روزہ لازم سمجھ کر رکھنے لگے، جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ چلا کہ لوگ رجب کا خاص اہتمام کرکے لوگ روزہ رکھ رہے ہیں تو انہوں نے اس بدعت کا سد باب کیا چنانچہ وہ فوراً گھر سے نکل پڑے اور ایک ایک شخص کو جاکر زبردستی فرماتے :

” تم میرے سامنے کھانا کھاؤ اور اس بات کا ثبوت دو کہ تمہارا روزہ نہیں ہے۔ ” 

باقاعدہ اہتمام کرکے لوگوں کو کھانا کھلایا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اور صحابہ کرام کا خاموش رہنا اس لیے تھا تاکہ لوگوں کو یہ خیال نہ ہو کہ رجب کے روزوں کی زیادہ فضیلت ہے، بلکہ جیسے اور دنوں میں نفلی روزہ رکھے جاسکتے ہیں، اسی طرح اس دن کا بھی نفلی روزہ رکھا جاسکتا ہے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔

واللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: 27/7/1440

عیسوی تاریخ: 3/4/2019

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں