مختلف طریقوں سےبالوں کے ڈیزائن سیکھنا

سوال: مجھے ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے کہ بالوں کی اسٹائل سیکھنا کیسا ہے اگر کوئی شوق میں سیکھتا ہے یا یہ کہ ہنر سیکھنے اور پھر سکھانے کی نیت سے سیکھے تو اسکا کیا حکم ہے اور پھر یہ کہ ہئیر اسٹائل کورس میں مختلف ہئیر اسٹائل سکھائے جاتے ہیں جس میں ممکن ہے کہ بعض طریقے خلاف شرع ہوں جسکا ہمیں معلوم نہ ہو تو اس بارے میں کیا کیا جاسکتا ہے اس حوالے سے رہنمائی درکار ہے

اور اس سیکھنے کے لئے ڈمی اور وگ وغیرہ پریکٹس کیلیئے اپنے گھر میں رکھنا اور استعمال میں لانا کیسا ہے ؟

جواب:زیب وزینت اور بناؤ سنگھار عورت کا فطری حق ہے، اسلام عورت کی اس فطری خواہش کا مخالف نہیں ہے، لیکن اس زیب و زینت اور بناؤ سنگھار میں بھی شرعی حدود و قیود سے تجاوز کرنا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں سے انحراف کرنا ہرگز درست نہیں اور شرعی حدود و قیود میں رہتے ہوئے بناؤ سنگھار کرنے کا مقصود صرف شوہر کو خوش کرنا ہو نہ کہ دوسری عورتوں اور نامحرم مردوں کو دکھانا(1)۔

لہذا جائز حدود میں رہتے ہوئے ہیئر اسٹائل سیکھنا سکھانا جائز ہے،مثلا:

1. سر کے بالوں کو زیادہ مقدار میں کاٹے بغیر مختلف ڈیزائن سے سنوارنا۔

2.سر کے اوپر کوہان کی شکل کا جوڑا نہ بنانا،حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔(2)

3.اس ہیئر اسٹائل کی کافرہ اور فاسقہ عورتوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔(3)

4. اپنے شوہر کادل خوش کرنے کےلیے ایسا کیا جائے۔(1)

باقی رہی بات گھر میں ڈمی(مجسمہ) رکھنے کی تو واضح رہے کہ جاندار کی مجسمہ سازی چاہے وہ کسی بھی صورت میں کسی بھی مقصد کے لیے ہو مطلقاً حرام ہے۔(4)

جہاں تک بات ہے وگ کی تو اگر وگ انسان یا خنزیر کے بالوں کی ہے تب تو ناجائز ہے اور اگر نقلی بالوں کی ہو تو اسے پریکٹس کے لیے رکھنا یا استعمال میں لانا جائز ہے بشرطیکہ دھوکہ دینا مقصود نہ ہو۔(5)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ عورت کےلیے دوسری عورتوں کا میک اپ یا بالوں کو مختلف طریقوں سے ڈیزائن کرنا، اسی طرح ان کا سیکھنا،سکھانا فی نفسہ جائز ہے بشرطیکہ تمام ناجائز امور سے بچا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1). مافی”القرآن الکریم“ ..{وعاشروھن بالمعروف}۔ (سورہ النساء:١٩) ۔۔۔ وقولہ تعالی: {ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف}۔۔ (سورة البقرة:٢٢٨)

مافی ”الموسوعة الفقھیة“: یستحب لکل من الزوجین ان یتزین للآخر،لقولہ تعالی:{وعاشروھن بالمعروف}

(2)مشکاۃ شریف میں ہے :

«صنفان من أَهل النار لم ارھما قوم معھم سیاط كاذناب البقر يضربون بها الناس ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات رءوسهن كاسنمة البخت المائلة لا يدخلن الجنة ولا يجدن ریحها وان ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا» (صحیح مسلم:۲۱۲۸)

ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ دوزخیوں کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا (اور نہ میں دیکھوں گا ) ایک گروہ تو ان لوگوں کا ہے جن کے ہاتھوں میں گائے کی مانند کوڑے ہوں گے جس سے وہ (لوگوں کو ناحق ) ماریں گے اور دوسرا گروہ ان عورتوں کا ہے جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی مگر حقیقت میں ننگی ہوں گی، وہ مردوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود مردوں کی طرف مائل ہوں گی، ان کے سر بختی اونٹ کی کوہان کی طرح ہلتے ہوں گے، ایسی عورتیں نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ جنت کی بو پائیں گی حالانکہ کہ جنت کی بو اتنی اتنی (یعنی مثلاً سو برس) دوری سے آتی ہے ۔‘‘

اس حدیث کی تشریح میں صاحب مظاہر حق لکھتے ہیں :

’’ان کے سر بختی اونٹ کے کوہان کی طرح ہلتے ہوں گے ‘‘ سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنی چوٹیوں کو جوڑے کی صورت میں سر پر باندھ لیتی ہیں اور جس طرح بختی اونٹ کے کوہان فربہی کی وجہ سے ادھر ادھر ہلتے رہتے ہیں، اسی طرح ان کے سر کے جوڑے بھی ادھر ادھر ہلتے رہتے ہیں ۔ اس حدیث میں عورتوں کے جس خاص طبقہ کی نشان دہی کی گئی ہے اس کا وجود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں نہیں تھا، بلکہ یہ آپ کا معجزہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے زمانہ میں اس قسم کی عورتوں کی پیدا ہونے کی خبر دی ‘‘۔

(3)”لعن اللہ المتشبھین من الرجال بالنساء والمتشبھات من النساء بالرجال“.

(مشکوة المصابیح:باب الترجل، الفصل الاول،٣٨٠/٢)

ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی اور مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔

”عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیه وسلم: من تشبه بقوم فھو منهم“.

(سنن أبي داود:کتاب اللباس، باب في لبس الشہرة، ۵۵٩/٢، رقم: ٤۰۳۱،ط: دار الفکر بیروت، مشکاة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني،ص:۳۷۵ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، ”من تشبه بقوم“أي: من شبه نفسه بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار الخ

(مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح:۲۲۲/٨،ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ شخص اسی قوم میں شمار ہوگا۔

(4)”عن سعید بن أبي الحسن قال: كنت عند ابن عباس إذ جاءه رجل، فقال: يا ابن عباس! إني رجل إنما معيشتي من صنعة يدي، وإني أصنع هذه التصاوير، فقال ابن عباس: لا أحدثك إلا ماسمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعته يقول: من صوّر صورةً فإن الله معذّبه حتى ينفخ فيه الروح وليس بنافخ فيها أبداً. فربا الرجل ربوةً شديدةً واصفرّ وجهه. فقال: ويحك! إن أبيت إلا أن تصنع فعليك بهذا الشجر وكل شيء ليس فيه روح.“ رواه البخاري.(مشکاۃ المصابیح، باب التصاویر، ص:386 ط:قدیمی)

ترجمہ:”حضرت سعید ابن ابو الحسن تابعی کہتے یں کہ (ایک دن) میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ناگہاں ایک شخص ان کے پاس آیا اورکہنے لگاکہ ابن عباس میرے معاشی زندگی کا انحصار میرے ہاتھوں کی محنت مزدوری پر ہے جن کے ذریعہ میں یہ تصویریں بناتا ہوں(اب سوال یہ ہے میں کیا کروں کیونکہ شریعت نے اس پیشہ کو حرام قرار دیا ہے اور کوئی دوسرا پیشہ مجھے آتا نہیں کہ جس کے ذریعہ اپنی روزی کا انتظام کروں تو کیا اس مجبوری کے تحت میرے لیے یہ پیشہ جائز ہے یا نہیں؟) حضرت ابن عباس عنہما نے (جب یہ دیکھا کہ تصویر کشی کے کام سے اس شخص کا تعلق سخت نوعیت کا ہے اور شاید میرے منع کرنے سے باز نہ آئے تو انھوں نے اس کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی،چنانچہ انھوں نے)فرمایا کہ میں تمھارے سامنے اس بات کے علاوہ اور کوئی بات بیان نہیں کروں گا جس کو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے،(تو تم توجہ سے سنو کہ) میں نےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”جو شخص تصویر سازی کرے گا اللہ تعالی اس کو عذاب میں مبتلا رکھے گا یہاں تک کہ وہ اس تصویر میں روح پھونک دے،درآں حالیکہ وہ اس تصویر میں ہرگز روح نہیں پھونک سکے گا۔“اس شخص نے (یہ وعید سن کر) بڑا گہرا سانس لیا اور اس کا چہرہ(خوف کی وجہ سے) پیلا پڑگیا،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے(اس کی یہ حالت دیکھی تو)فرمایا کہ ”تم پر افسوس ہے: اگر تم اس(تصویر کشی)کے پیشہ کے علاوہ دوسرے پیشوں (کو قبول کرنے سے)انکار کرتے ہوئے(کیونکہ تم کوئی اور پیشہ جانتے ہی نہیں) تو ایسا کرو کہ ان درختوں کی اور ان چیزوں کی تصویریں بنانے لگو جو بے جان ہیں۔“

(5)”عن ابن عمر أن النبی ﷺ قال : لعن الله الواصلة و المستوصلة و الواشمة و المستوشمة”.

( متفق علیه ، المشکاة : ٣٨١ )

ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” اللہ تعالی نے لعنت فرمائی اس عورت پر جو اپنے بالوں میں کسی دوسرے کے بالوں کا جوڑ لگائے اور اس عورت پر جوکسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جسم گودنے اور گدوانے والی پر ( بھی لعنت فرمائی )“۔

فقط واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں