ملازم کا مالک کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں تصرف کرنا

سوال: السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ!
میں ایک ڈیپارٹمنٹ میں بطورِ کاؤنٹر کے ملازم ہوں،جب مالک نے مجھے ملازم مقرر کیا تو اس وقت مالک نے یہ بھی کہا کہ میں آپ کو گھر بھی دوں گا ،اب ملازمت کے شروع کرنے کے تین چار دن بعد میں نے کچھ سہولیات کا مطالبہ کیا ،جن میں سارے ڈیپارٹمنٹ کی صفائی والوں کے مزدورں کی بات کی،اس پر مالک نے صفائی والے رکھ لیے جو کچھ ماہ تو سارے فلورز کی صفائی کرتے رہے اور ان کی اجرت بھی مالک ہی دیتا رہا؛لیکن کچھ عرصے بعد مالک نے سب سے اوپر والے فلور(جس میں میری رہائش تھی) کی صفائی کی اجرت نہیں دی،بات کرنے پر خاموشی اختیار کر لی۔اب میرے پاس چونکہ سارے ڈیپارٹمنٹ کا حساب کتاب ہوتا ہے تو میں نے اس جمع شدہ رقم سے مالک کی اجازت کے بغیر صفائی والے کی اجرت دے دی تو پوچھنا اب یہ ہے کہ میرے لیے اس طرح اس رقم سے اجرت کے لیے پیسے نکالنا درست ہے ؟
الجواب باسم ملھم الصواب
صورتِ مذکورہ میں اگر صفائی والے کی اجرت معاہدے میں طے نہیں تھی تو جتنا عرصہ مالک دیتا رہا وہ اس کی طرف سے تبرع واحسان تھا ،مالک پر لازم نہیں تھا ؛لہذا اب ملازم کا مالک کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے اجرت کے لیے کٹوتی کرنا جائز نہیں ،بلکہ جو کٹوتی کی وہ مالک کو واپس کرنا ملازم کے ذمے لازم ہوگا۔
===========
حوالہ جات
1۔عن أبي أمامة رضى اللّٰه عنه قال قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:”يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب“۔
(مسند احمد:552/5)
(مشکاة المصابيح:رقم الحدیث،4860))
ترجمة:”مومن ہر خصلت پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے“۔

2۔ عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال: “المسلمون على شروطهم إلا شرطاً حرم حلالاً،وأحل حراماً،والصلح جاىٔز بين الناس، إلا صلحاً أحل حراماً أو حرم حلالاً”.
(المعجم الكبير:22/17)
ترجمہ: رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:”مسلمان اپنی شرطوں پر ہیں ، سوائے اس شرط کے جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرائے ،اورلوگوں کے درمیان صلح جائز ہے سوائے اس صلح کے جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرائے۔
3۔”لا يجوز التصرف فى مال غيره بلا إذنه ولا ولايته“۔
(فتاوی شامیه:200/6)
4۔”التعميرات التي أنشأها المستأجر بإذن الآجر إن كانت عائدةً لإصلاح المأجور وصيانته عن تطرق الخلل كتنظيم الكرميد (أي القرميد وهو نوع من الآجر يوضع على السطوح لحفظه من المطر) فالمستأجر يأخذ مصروفات هذه التعميرات من الآجر وإن لم يجر بينهما شرط على أخذه وإن كانت عائدةً لمنافع المستأجر فقط كتعمير المطابخ فليس للمستأجر أخذ مصروفاتها ما لم يذكر شرط أخذها بينهما”.
(مجلة الأحكام العدلية:ص:84)
5۔”لا يجوز لأحد أن يتصرف فى ملك غيره بلا إذنه أو وكالة منه أو ولاية عليه،و إن فعل كان ضامناً“۔
(شرح المجلة:61/1 , مادة:96)
واللّٰہ اعلم بالصواب
29 صفر 1444ھ
26 ستمبر 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں