نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم امّابعد!
اللھم اعزالا سلام بابی جھل بن ھشام او بعمر بن الخطاب
(ترمذی : ۲/۲۰۹ مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب، ابواب المناقب، مسند احمد بن جنبل:۲/۹۵)
بندوں کے ساتھ دو طرح کا معاملہ:
اﷲ کا اپنے بندوں کے ساتھ دو طرح کا معاملہ ہے۔ بعض کو اﷲ خود اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اسے اپنا بنا لیتے ہیں اور بعض بلکہ اکثر لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ جب تک بندہ اﷲ کی طرف چل کر نہ جائے اور طلب پیدا نہ کرے اس وقت تک اﷲ اس کو اپنا نہیں بناتے۔ پہلا طریقہ غیر اختیاری ہے۔ بس اﷲ کے علم اور حکمت میں کوئی ایسی بات ہوتی ہے جس کہ وجہ سے اﷲ کی نظرِ انتخاب اس پر پڑتی ہے اور اس کی طلب اور کوشش کے بغیر اﷲ اسے اپنا بنا لیتے ہیں۔ جبکہ دوسرا طریقہ اختیاری ہے اور یہی اﷲ کا عمومی قاعدہ اور طریقہ بھی ہے۔ اﷲ کا اصل قانون اور قاعدہ یہی ہے کہ انسان اپنی ہمت، کوشش کے مطابق اﷲ تک پہنچنے کی راہ اختیار کرے۔ ان شاء اﷲ ! اﷲ اس پر اپنی راہیں کھول دیں گے۔
اب بہت سے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں کچھ بھی نہ کرنا پڑے یہاں تک کہ نماز بھی نہ پڑھنا پڑے اور وہ اﷲ کے مقرب بن جائیں۔ یہ بالکل غلط سوچ ہے۔ اصل قاعدے کے مطابق ہی انسان کو ترقی کا طلب گار ہونا چاہیے!
حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کا واقعہ:
میرے دوستو! ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں سے بھی سوائے چند ایک صحابہ کے باقی سب صحابہ اپنی طلب اور کوشش اور اختیار سے اﷲ کے دین کی طرف آئے ہیں اور اختیاری طریقے کے مطابق اﷲ نے ان کو اپنے دین کے لیے منتخب کیا، جبکہ ایک صحابی ایسے ہیں جو پہلے طریقے کے مطابق یعنی غیر اختیاری طریقے کے مطابق مسلمان ہوئے ہیں۔ ان کے لیے اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعائیں مانگی تھیں کہ اے اﷲ! عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام (ابوجہل) میں سے کسی ایک کو اسلام کی دولت سے سرفراز فرما تاکہ اسلام کو اس کی وجہ سے عزت ملے۔ مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری سے کسی نے پوچھا کہ حضرت علی اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما میں سے افضل کون ہیں؟ تو انہوں نے عجیب جواب دیا کہ ’’حضرت علی رضی اﷲ عنہ مرید رسول تھے جبکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ مراد رسول ہیں۔‘‘ یعنی حضرت عمر کو تو اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے دُعائیں کرکے باقاعدہ اﷲ سے مانگا ہے۔ وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مراد ہیں اور اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعا سے مسلمان ہوئے ہیں۔ اب دیکھیں نا! حضرت عمر b گھر میں بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ مکہ مکرمہ کے گھر گھرمیں جھگڑے پھیل گئے ہیں۔ ایک نئے دین کی وجہ سے ماں بیٹوں میں جدائی پیدا ہورہی ہے۔ بھائی بھائی کا دشمن بن گیا ہے۔ آباء و اجداد کے طریقوں کو غلط اور نا حق کہا جارہا ہے۔ ایک نئے دین اسلام کی وجہ سے ایک بیٹا اپنی ماں کی نافرمانی کرتا ہے وہ اس سے ناراض ہوجاتی ہے تب بھی وہ اس دین سے باز نہیں آتا کیوں نہ میں اس قصہ کو ہی نعوذ باﷲ ختم کردوں!
میرے دوستو! والدین سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوسکتے لیکن دین کے معاملے میں اﷲ تعالیٰ نے کہہ دیا ہے کہ شرک اور گناہ اور اﷲ کی نافرمانی کی جو بات ہو اس میں والدین کی بھی بات ماننا جائز نہیں۔ چنانچہ اسی وجہ سے جو صحابہ ایمان لے آئے تھے ان کے والدین انہیں طرح طرح سے دین اسلام چھوڑنے پر آمادہ کرتے تھے کھانا پینا بند کردیتے تھے یا بات چیت بند کردیتے تھے لیکن چونکہ ان کی یہ ناراضگی اﷲ کی نافرمانی کرانے کے لیے تھی اس لیے وہ اس پر ہرگز آمادہ نہ ہوسکتے تھے
ہاں! دنیا کے معاملات میں اور حسن سلوک کے معاملے میں کافر والدین سے بھلائی کا ہی حکم دیا گیا ہے۔
بات یہ چل رہی تھی کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ یہ سوچ رہے تھے کہ نعوذ باﷲ گھر گھر فساد اور خانہ خرابی کی اصل وجہ یہ نیا دین ہے جس کی دعوت حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم دے رہے ہیں۔ لہٰذا اگر معاذ اﷲ! ان کو ختم کردیا جائے تو یہ سارے فسادات ختم ہوجائیں گے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ایسے خطرناک ارادے سے گھر سے نکلے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ تھے بہت بہادر، ننگی تلوار لے کر نکلے۔ حالانکہ عربوں میں دستور یہ تھا کہ تلوار ننگی جنگ اور لڑائی کے وقت کی جاتی تھی ۔ عام حالات میں تلوار نیام میں ہی رکھی جاتی تھی، لیکن حضرت عمررضی اللہ عنہ گویا اعلان جنگ کرتے ہوئے تلوار ننگی کرکے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے نکلے تھے۔ کسی نے راستے میں پوچھا کہ عمر! اس طرح تلوار لے کر کدھر چلے جارہے ہو؟ حضرت عمررضی اللہ عنہنے جواب دیا کہ ’’(معاذ اﷲ) جس شخص کی وجہ سے گھر گھر میں فساد برپا ہے اس کو قتل کرنے جارہا ہوں۔‘‘ اس شخص نے کہا: سوچ کر بولو کیا کہہ رہے ہو؟ حضرت عمر نے کہا: ہاں ہاں! میں انہیں کو قتل کرنے جارہا ہوں تو اس شخص نے کہا کہ وہ دین خود تمہارے گھر تک پہنچ چکا ہے، جاؤ پہلے اپنے گھر والوں کی تو خبر لو!
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جب یہ بات سنی تو وہ سارا غصہ جو اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر تھا وہ سارا غصہ اپنے گھر والوں کی طرف منتقل ہوگیا اور پلٹ کر اپنے گھر کی طرف چل دیے۔ وہاں دروازے سے کان لگایا تو قرآن مجید کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا، آواز آنا بند ہوگئی اور دروازہ کھلنے میں تھوڑی دیر لگی کیونکہ ان کی بہن اور بہنوئی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ سے قرآن سیکھ رہے تھے، وہ جلدی سے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور قرآن کی اس سورت کو چھپانے لگے جس کی تلاوت وہ کر رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہنے دروازہ زور زور سے بجایا۔ اندر سے دروازہ کھلا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ابھی کس چیز کے پڑھنے کی آواز آرہی تھی؟ ان کی بہن نے کہا: کہ کسی چیز کی نہیں، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے خود اپنے کانوں سے وہ آواز سنی ہے بتاؤ کیا پڑھ رہی تھی اور یہ کہہ کر اپنی بہن کو مارنا شروع کردیا اور اتنا مارا اتنا مارا کہ بہن کا چہرہ خون سے سرخ ہوگیا۔ لیکن وہ یہی کہتی رہیں کہ عمر! جان چلی جاتی ہو تو چلی جائے لیکن اسلام سے نہیں پھروں گی۔‘‘
اﷲ کے دین کے لیے قربانی دینے اور خون بہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ذرا سنبھل گئے اور سوچنے لگے کہ آخر دیکھوں تو سہی وہ کیا چیز ہے جس کی خاطر سے یہ میری کمزور بہن اتنی قربانی دینے پر آمادہ ہے لیکن اس سے باز آنے پر آمادہ نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی بہن سے کہا کہ بتاؤ وہ کیا چیز ہے جو تم پڑھ رہی تھیں؟ ان کی بہن نے کہا کہ تم ناپاک ہو! مشرک ہو بغیر غسل اور پاک ہوئے تم قرآن نہیں پکڑ سکتے اس لیے پہلے غسل کرو! تب تم اسے پڑھ سکتے ہو۔ حضرت عمر جو ابھی قرآن کی دعوت کو ختم کرنے کے ارادے سے نکلے تھے اب خود قرآن پڑھنے کے لیے غسل کے لیے تیار ہوگئے اور غسل کرکے آئے۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی دُعاؤں کی برکت سے حضرت عمررضی اللہ عنہ اب اسلام کی طرف بڑھ رہے تھے۔ قرآن شریف کا وہ حصہ جو سورہ طٰہٰ کا ابتدائی حصہ ہے پڑھا تو اسلام مزید دل میں بیٹھ گیا اور آپ ﷺ سے ملاقات کی تمنا ظاہر کی۔ اب یہ قافلہ چلا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہوا، حضور wکی خدمت میں جب حضرت عمررضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تو آپﷺ کو پہلے سلام کیا۔ آپ ﷺنے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور کہا کہ ’’عمر! کب تک شک میں رہو گے؟ حضورﷺ کا یہ جھٹکا ایسا جھٹکا تھا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ اسی ایک جھٹکے سے تمام ترقی کی منزلیں طے کر گئے اور مشرف بہ اسلام ہوگئے یہ حضرت زید بن ارقم کا گھر تھا اور مسلمان اسی میں نمازیں خفیہ طور پر ادا کرتے تھے۔ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ یہ نماز یوں چھپ کر گھر میں کیوں ادا کی جارہی ہے۔ خانہ کعبہ میں کیوں ادا نہیں کی جاتی؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر! تمہاری قوم خانہ کعبہ میں عبادت کہاں کرنے دیتی ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’عمر اسلام لے آیا ہے۔ اب دیکھتا ہوں کہ کون مسلمانوں کو خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے سے روکتا ہے؟ اس طرح آج پہلا دن تھا جب مسلمانوں نے خانہ کعبہ میں سرعام باجماعت نماز ادا کی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہنے اعلان کردیا تھا کہ ’’ہے کوئی مائی کا لعل جو مسلمانوں کو بیت اﷲ میں نماز پڑھنے سے روک سکے۔ اب عمر اسلام لے آیا ہے!‘‘ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو عزت اور شوکت ملی۔ ورنہ ان کے اسلام سے پہلے مسلمانوں کو خانہ کعبہ میں نما ز پڑھنے کی اجازت نہ تھی بلکہ آپﷺجب بھی بیت اﷲ میں نماز پڑھنے کی کوشش کرتے کافر آپ کی گردن پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دیتے اور طرح طرح سے تنگ کرتے۔
(سیرت المصطفیٰ: ۱/۲۸۱۔۲۸۵، اسلام عمربن الخطاب)
میرے دوستو! یہ تو ان کے اسلام لانے کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد جب آپﷺ کا وصال ہوا اور پھر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کا دور خلافت گزرنے کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو ان کے دور میں مسلمانوں کی حکومت 2 لاکھ مربع میل تک پھیل گئی۔ خود ایک انگریز مؤرخ نے یہ بات لکھی ہے کہ ’’مسلمانوں کی تاریخ میں اگر ایک اور عمر پیدا ہوجاتا تو اسلام پوری دنیا میں پھیل جاتا۔‘‘
میرے دوستو! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کی بنیاد ہے۔ صحابہ سے محبت کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اﷲ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سچی اتباع نصیب فرمائے۔ ان کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا فرمائے اور اﷲ اپنی رضا کا راستہ ہمارے لیے آسان فرمائے! آمین