مروجہ میت کمیٹی کا حکم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداًومصلیاً
واضح رہےکہ بوقت ضرورت باہمی تعاون کےلئےکوئی کمیٹی یافنڈقائم کرنااگرچہ فی نفسہ جائزہے،لیکن مروجہ میت کمیٹی وغیرہ میں عام طور پر متعدد مفاسد اورخرابیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے ایسی کمیٹی بنانے سے اجتناب کرنا لازم ہے۔وہ مفاسد مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔جو رقم کمیٹی اور فنڈ کے لئے جمع ہوتی ہے اس کی وصولیابی میں جبر یا کم از کم شرماشرمی پائی جاتی ہے اور شرعاً کسی کی خوش دلی کے بغیر اس سے لیا گیا چندہ یا عطیہ حلال نہیں۔
۲۔۔۔ چونکہ چندہ دینےوالااگرنصاب زکوٰۃ کامالک ہوتو چندہ دینے و الے کی ملکیت اس کی رقم پرباقی رہتی ہے،اِس لئے اس رقم پر زکوۃ کی ادائیگی بھی چندہ دینے والے کےذمہ باقی رہتی ہے،جبکہ عموماًکوئی بھی اس کی زکوۃ ادا نہیں کرتا۔
۳۔چونکہ چندہ دینے والے کی شرعاً ملکیت باقی رہتی ہے،اس لئےاگروہ کمیٹی چھوڑ دےتو اس کی بقایا رقم (یعنی کمیٹی چھوڑنےسےپہلےجورقم مختلف میتوں کےکفن ودفن وغیرہ میں استعمال ہوچکی ہوگی،اس کےعلاوہ فنڈمیں اس کےحصہ کی جورقم خرچ کرنےسےبچی ہوئی ہے)اسی کو واپس کرنا لازم ہے ۔ اور اگروہ فوت ہو جائےتو اس صورت میں اس کی بقایا رقم اس کےوارثوں کوواپس کرنا لازم ہے ۔حالانکہ مروجہ کمیٹی میں اگرکوئی رکن کمیٹی چھوڑ دےتواس کواس کی جمع کرائی ہوئی یا بچی ہوئی رقم واپس نہیں دی جاتی۔
4۔آئندہ اس طریقہ کوضروری یاسنت سمجھےجانےکااندیشہ ہے۔
5۔اس قسم کےچندہ میں عموماًحدودوشرائط کااہتمام نہیں کیاجاتااوراجتماعی چندہ کابےجااستعمال ہوتا ہے ۔
6۔عام طورپراس رقم سےکئی دن تک میت کےگھرلوگوں کوکھاناکھلانےکےاخراجات کیےجاتےہیں جس میں کمیٹی والے،اہل محلہ،اورامیروغریب سب شریک ہوتےہیں،نیزدیگررسوم وبدعات کی جاتی ہیں۔ لہذامذکورہ بالامفاسد کی وجہ سے میت کمیٹی بنانےسےاجتناب کرناضروری ہے۔
البتہ جہاں میت کےلواحقین ضرورت مندہوں وہاں لوجہ اللہ (جس میں بدلےکی نیت نہ ہو)صرف تجہیزوتکفین کےحقیقی اخراجات کےلئے بقدر ضرورت کچھ لوگ انفرادی طورپراپنی دلی خوشی سےاپنی اپنی استطاعت کےبقدران کےساتھ تعاون کردیں جس میں کسی پرجبرنہ کیاجائےاورنہ شرماشرمی میں دیں تومیت کےلواحقین کےساتھ اس طرح تعاون کرنا جائزہے،بلکہ بوقت ضرورت اس طرح تعاون کرنےکی شرعاترغیب موجودہےاور باعث ثواب ہے ۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)» (2/ 240):
وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال ” كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة “. اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذطعاما للفقراء كان حسنا اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى. اهـ.
«الفتاوى الهندية» (1/ 167):
ويكره الجلوس على باب الدار وما يصنع في بلاد العجم من فرش البسط والقيام على قوارع الطرق من أقبح القبائح، كذا في الظهيرية….ولا بأس بأن يتخذ لأهل الميت طعام، كذا في التبيين، ولا يباح اتخاذ الضيافة عند ثلاثة أيام، كذا في التتارخانية.
«فتح القدير للكمال ابن الهمام» (2/ 142):
ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. روى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں