مسلسل قے کی وجہ سے معذور ہونا

سوال:السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں فقھاۓ کرام اس مسئلے میں کے اگر کسی شخص کو قے مسلسل ہو رہی کہ نماز کا موقع بھی نہ ملے تو نماز کا کیا حکم ہے؟

الجواب باسم ملہم الصواب

و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

اگر مذکورہ صورت واقعی ایسی ہی ہے جیسا سوال میں ذکر کی گئی ہے کہ قے اتنی کثرت سے ہو کہ پھرتی سے صرف وضو کے فرائض ادا کرکے ،فرض نماز پڑھنے کی مہلت بھی نہیں ملتی تو ایسا شخص شرعاً معذور سمجھا جائےگا۔

معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت تازہ وضو کرے اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنے چاہے فرائض،نوافل اور قرآنِ کریم کی تلاوت کرے۔ اس ایک وقت کے دوران جتنی بار بھی قے ہو وہ باوضو ہی سمجھا جائے گا [بشرطیکہ قے کے علاوہ کوئی اور وضو کوتوڑنے والی چیز نہ پایا جائے]۔ ہاں !جب نماز کا وقت ختم ہوجائے اور دوسرے فرض نماز کا وقت شروع ہو جائے تو اس کا وضو بھی ختم ہوجائے گا۔ اب اگلی نماز کے لیے دوبارہ تازہ وضو کرنا ہوگا۔

جب تک اس شخص کو ایک مکمل نماز کا وقت [مثلا ظہر سے عصر تک] بغیر عذر پیش آنے کا نہ ملے، وہ معذور ہی سمجھا جائےگا اور مذکورہ بالا احکام لاگو ہوں گے۔

البتہ اگر معذور کی مذکورہ بالا تعریف اس پر پوری نہیں اترتی بلکہ پورے ایک نماز کہ وقت میں کچھ وقت قے کا سلسلہ رک بھی جاتا ہے، جس میں وہ بغیر اس عذر کے فرض نماز ادا کرسکتا ہے،تب اس کے لیے معذور کا حکم نہیں لگایا جائے گا،تاہم جب بھی منہ بھر کر قے آئے گی تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

اس صورت میں جیسے ہی قے کا سلسلہ رکے، فوراً وضو کرکے فرض نماز پڑھ لی جائے، تاخیر نہ کرے۔

(معذور کے مزید تفصیلی احکام کے لیے بہشتی زیور کا مطالعہ کیجیے)

===========

حوالہ جات

• (وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل. ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]، (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه.وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فوراً له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته [رد المحتار: ج ۱ ص ۳۰۵]

فقط۔ واللہ اعلم۔

اپنا تبصرہ بھیجیں