مطلقہ عورت کی کفالت اور معاملات میں اختیار کا حکم

سوال: طلاق یافتہ عورت کی کفالت کس کے ذمہ ہے اور ایسی عورت کس حد تک اور کن معاملات میں خود مختار ہے؟

الجواب باسم ملهم الصواب!

1.واضح رہے کہ مطلقہ عورت کے نفقہ کی ذمہ داری اس کے والد پر ہے۔اگر والد نہ ہوں تو پھر نفقہ دوسرے محرم رشتہ داروں کے ذمہ ہوگا۔

2. مطلقہ عورت عدت گزرجانے کے بعد عام عورتوں کی طرح رہے گی یعنی وہ محرم مردوں کے سامنے خوشنما لباس ،زیور وغیرہ پہن سکتی ہے۔عقدِ نکاح کا انتظام ہوجائے تو عقد کرسکتی ہے۔ اسی طرح اگر نفقہ کوئی اور ادا نہ کررہا ہوتو پھر پردے کی حالت میں گھر سے نکل کر نفقہ کا انتظام بھی کرسکتی ہے۔

=======================

1)قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا انفق المسلم نفقة على اهله وهو يحتسبها كانت له صدقة.

ترجمه: رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جب مسلمان اپنے عیال پہ خرچ کرتا ہے اور وہ اس سےالله کی رضا کی امید رکھتا ہے تو وہ (خرچ کرنا) بھی صدقہ ہے۔

(صحیح البخاری: 5351)

2)يجبر على نفقة كل ذى رحم محرم منه الصغار والنساء واهل الزمانة من الرجال-

(المبسوط للسرخسى:6217)

3)فالاناث عليه نفقتهن الى ان يتزوجن اذا لم يكن لهن مال وليس له ان يواجرهن فى عمل ولا خدمة وان كان لهن قدرة اذا طلقت وانقضت عدتها عادت نفقتها على الأب.

(فتح القدير : 371)

والله سبحانه وتعالى اعلم

7/6/1443

11/1/2022

اپنا تبصرہ بھیجیں