نان و نفقہ نہ دینے پر یکطرفہ عدالتی تنسیخ نکاح بربنائے خلع کا شرعی حکم

فتویٰ نمبر:668

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال، دعوی اور اس کے ساتھ منسلکہ تنسیخ نکاح کے عدالتی فیصلہ کا مطالعہ کیا گیا،اگر یہ تفصیلات واقعة درست ہیں اور منسلکہ عدالتی تنسیخ نکاح کی ڈگری اصل کے مطابق ہے تو ان سب کا حاصل یہ ہے کہ مدعیہ بیوی مساة شکیلہ بی بی دختر غلام حیدر نے عدالت میں اپنا دعوی داخل کیا، جس میں اس نے مد عی  علیہ شوہر مسی غلام علی ولد غلام صدیق پر کچھ الزامات لگائے ہیں، جن میں شوہر کا گھر سے نکال دینا، نان و نفقہ نہ دینا، نشہ کرنا اور بدکار عورتوں سے میل جول رکھنا وغیرہ شامل ہیں، اور مدعیہ مسماة شکیلہ بی بی کا کہنا یہ ہے کہ اب اس کے دل میں مدعی علیہ شوہر کیلئے سخت نفرت پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اس کیلئے شوہر کیساتھ رہنا ممکن نہیں ہے، بلکہ وہ اس کے ساتھ رہنے کے بجائے مرنے کو ترجیح دیتی  ہے، لہذا عدالت اس کے حق میں تنسیخ نکاح بر بنائے خلع کی ڈگری جاری کرے۔

اس کے بعد عدالت نے شوہر کو بلانے کیلئے سمن جاری کئے اور اخبار میں اشتہار دیا لیکن شوہر نے عدالت میں حاضر ہو کر اپنا دفاع نہیں کیا چنانچہ اسکے بعد عدالت نے بیوی کے دعوی کو بنیاد بناکر دونوں کا نکاح ختم کر دیا ہے۔

اس فیصلہ کا شرعی حکم یہ ہے کہ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اگر واقعۃ  شوہر کو اطلاع ہوئی تھی کہ میرے خلاف عدالت میں کیس چل رہا ہے اور عدالت مجھے طلب کر رہی ہے اور اسے عدالت میں حاضر ہو کر جواب دینے کا موقع دیا گیا، لیکن اس کے باوجود وہ حاضر عدالت نہیں ہوا اور نہ ہی اپنادفاع کیا تو اس سے عدالت کے سامنے شوہر کا”تعنت “ثابت ہو گیا، اسی طرح یہ اس کی طرف سے ”نکول عن الیمین“ یعنی قسم  سے انکار بھی ہے، لہذا اب یہ سمجھا جائیگا کہ صورت مسئولہ میں نان و نفقہ نہ دینے کی وجہ سے مد عی علیہ شوہر غلام علی متعنت ہے، مدعیہ مسماة شکیلہ بی بی بطور گواہ خود پیش ہوئی، جو کہ مکمل نصاب شہادت نہیں ہے، گویا مدعیہ کے پاس شر عی گواہ نہیں، ایسی صورت میں مدعی علیہ پر قسم  ہوتی ہے، چنانچہ مدعٰی علیہ شوہر کو قسم کیلئے بلایا گیا لیکن وہ حاضر عدالت نہیں ہوا، اس کے بعد عدالت نے مدعیہ کے حلفیہ بیان کی روشنی میں نان و نفقہ نہ دینے اور دیگر اسباب کی بنیاد پر نکاح فسخ  کر دیا ہے جو شرعا درست ہے۔ اور مدعیہ بیوی مسماة شکیلہ  بی بی دختر غلام حیدر، مدعٰی علیہ شوہر غلام علی ولد غلام صدیقی کے نکاح سے ایک طلاق بائن کے ساتھ خارج سمجھی جائیگی، لہذا اس عدالتی تنسیخ نکاح کے فیصلہ کی تاریخ سے جب مدعیہ کی عدت پوری ہو جائے تو اس کے بعد اگر وہ کسی دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو شرعا نکاح کر سکتی ہے۔

في سنن الترمذي – (3 / 626):

عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده : أن النبي صلى الله عليه و سلم قال في خطبته البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه

 وفي المغني – ابن قدامة – (11 / 486):

فإن امتنع من الحضور أو توارى فظاهر کلام أحمد جواز القضاء عليه لما ذکر عنه في رواية حرب وروى عنه أبو طالب في رجل وجد غلامه عند رجل فأقام البينة أنه غلامه فقال الذي عنده الغلام أودعني هذا رجل فقال أحمد أهل المدينة يقضون على الغائب يقولون إنه لهذا الذي أقام البينة وهو مذهب حسن وأهل البصرة يقضون على غائب يسمونه الأعذار وهو إذا ادعي على رجل ألفا وأقام البينة فاختفى المدعى عليه يرسل إلى بابه فينادي الرسول ثلاثا فإن جاء وإلا قد أعذروا إليه فهذا يقوي قول أهل المدينة وهو معنی حسن وقد ذكر الشريف أبو جعفر وأبو الخطاب أنه يقضي على الغائب الممتنع وهو قول الشافعي لأنه تعذر حضوره وسؤاله فجاز القضاء عليه كالغائب البعيدبل هذا أولى لأن البعيد معذور وهذا لا عذر له.

 وفي الحيلة الناجزة : (ص: 133):

و اما المتعنت المتنع عن الانفاق ففي مجموع الامير ما نصه ان منعها نفقة الحال فلها القيام فان لم يثبت عسره انفق او طلق و الا طلق عليه قال محشيه قوله والا طلق اي طلق عليه الحاكم من غير تلوم إلي أن قال وأن تطوع بالنفقة قريب او اجنبي فقال ابن القاسم لها ان تفارق لان الفراق قد وجب لها و قال ابن عبدالرحمن لا مقال لها لان سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتفي و

هو الذي تقضيه المدونه كما قال ابن المناصف

وفي بدائع الصنائع، دارالکتب العلمية – (2 / 326):

وهذه الفرقة تطليقة بائنة؛ لأن الغرض من هذا التفريق تخليصها من زوج لايتوقع منه إيفاء حقها دفعا للظلم والضرر عنها، وذا لا يحصل إلا بالبائن؛ لأنه لو كان رجعيا يراجعها الزوج من غير رضاها، فيحتاج إلى التفريق ثانيا وثالثا، فلا يفيد التفريق فائدته

 وفي الفتاوی الهندية – (1 / 286):

(والضابطة) أن كل فرقة جاءت من قبل المرأة لا بسبب الزوج فهي فسخ كخيار العتق والبلوغ، وكل فرقة جاءت من قبل الزوج فهي طلاق كالإيلاء والجب والعنة، كذا في النهر الفائق…………. واللہ تعالی بالصواب

محمد عاصم عصمہ اللہ تعالی

دارالافتاء جامعہ مظاہر العلوم کوٹ ادو

۱۰/ جمادی الاولی / ١٤٣٩ ھ

۲۸/ جنوری ۲۰۱۸ء

پی ڈی ایف فائل میں فتوی پڑھنےکےلیےلنک پرکلک کریں :https://www.facebook.com/groups/497276240641626/578779619157954/

اپنا تبصرہ بھیجیں