نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک

فتویٰ نمبر:2044

سوال:محترم جناب مفتیان کرام! 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا موئے مبارک جو ہوتا ہے وہ اصلی ہوتا ہے؟

والسلام

الجواب حامدا و مصليا

صحیح بخاری میں ہے:

عن انسٍ رضى الله عنه؛ أن رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لما حَلَقَ رأسَہ کان ابوطلحةَ اوّلُ من اَخَذَ من شعرِہ. (صحیح بخاری، ص:۲۹، ج:۱ کتاب الوضوء، باب الماء الذي یغسل بہ شعر الانسان)

”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جب اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے موئے مبارک لینے والوں میں اوّل تھے۔“

اسی طرح رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر یوم النحر میں منیٰ میں تشریف لاکر جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد اونٹوں کی قربانی کی، اس کے بعد مشہور اور صحیح قول کے مطابق معمربن عبداللہ العدوی رضی اللہ عنہ سے اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا، پھر موئے مبارک تقسیم فرمائے، ”صحیح مسلم“ وغیرہ میں ہے:

عن ابن مالک أن رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أَتٰی مِنٰی . فأتٰی الجمرةَ فرماہا ثم أتٰی منزلَہ بِمنٰی ونَحَرَ. ثم قال للحلّاق: خذ وأشارَ الی جانِبہ الأیمنِ. ثم الأیسرِ. ثم جَعَلَ یُعطِیْہِ الناسَ. (صحیح مسلم بشرح النووي، ص:45، ج:9 کتاب الحج، باب بیان أن السنة یوم النحر أن یرمي الخ)

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حجة الوداع یا کسی عمرہ میں حلق کے موقع پر یا عام حالات میں بال تراشنے کے موقع پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک حاصل ہوئے، تو انھوں نے ان کو بحفاظت رکھا اور ان سے برکت حاصل کرتے رہے۔

مذکورہ بالا روایات وعباراتِ کتب سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنے موئے مبارک تقسیم فرمائے تھے، حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں بحفاظت رکھا اور ان سے برکت حاصل کرتے رہے، پھر انہی سے وہ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوئے، ممکن ہے کہ اسی طرح قرناً بعد قرنٍ اورنسلاً بعد نسلٍ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوتے ہوئے آج کے زمانے میں کسی کے پاس پہنچے ہوں اور وہ اس کے پاس موجود ہوں۔

ترکی میں استنبول کے مشہور عجائب گھر توپ کاپے سرایے میں موجودتبرکات بشمول موئے مبارک کے متعلق شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم اپنے مشہور سفرنامہ ”جہانِ دیدہ“ میں تحریر فرماتے ہیں:

”یوں تو دنیا کے مختلف حصوں میں آں حضرت صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب تبرکات پائے جاتے ہیں، لیکن مشہور یہ ہے کہ استنبول میں محفوظ یہ تبرکات زیادہ مستند ہیں، ان میں سرورِ دوعالم صلى الله عليه وسلم کا جبہٴ مبارک، آپ کی دوتلواریں، آپ کا وہ جھنڈا جس کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ وہ غزوہ بدر میں استعمال کیاگیا تھا، موئے مبارک، دندانِ مبارک، مقوقش شاہِ مصر کے نام آپ کا مکتوبِ گرامی اور آپ کی مہرِ مبارک شامل ہیں۔“ (جہانِ دیدہ، ص:۳۳۸) ان تمام احادیث شریف سے ثابت ہے کہ نبیٴ کریم علیہ الصلاة والسلام نے اپنے موئے مبارک صحابہٴ کرام کو تقسیم فرمائے تھے۔

”فتاویٰ ابن تیمیہ“ میں ہے: فان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حَلَقَ رأسَہ، واعطیٰ نصفَہ لأبی طلحةَ ونصفَہ قَسَّمَہ بینَ الناسِ. (ص:۴۳، ج:۱) تو اگر کسی کے پاس ہو، تو تعجب کی بات نہیں۔ اگر اس کی صحیح اور قابل اعتماد سند ہو، تو اس کی تعظیم کی جائے، اگر سند نہ ہو اور مصنوعی ہونے کا بھی یقین نہیں تو خاموشی اختیار کی جائے، نہ اس کی تصدیق کرے اور نہ جھٹلائے، نہ تعظیم کرے اورنہ اہانت کرے۔ فقط (فتاویٰ رحیمیہ: ص:۲۷۷، ج:۲، مکتبہ رحیمیہ)

و اللہ سبحانہ اعلم

✍بقلم : 

قمری تاریخ: 3 ربیع الثانی 1440ھ

عیسوی تاریخ:11دسمبر 2018ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں