نفل نمازمیں خیالات آنے کی بناء پرنمازتوڑنےکاحکم

سوال:نفل نماز میں الٹے سیدھے خیالات آنےکی بنا پر نیت توڑنا کیسا ہے؟کفارہ کیا ہے ؟

سائلہ:بنت محمد ؛ناظم آباد کراچی

الجواب باسم ملہم الصواب

نفل نماز میں بھی وساوس کی صورت میں نماز نہیں توڑنا چاہیےاگرغلطی سے توڑ دے تو اعادہ کرے اور آئیندہ ایسا نہ کرے ۔فقط(فتاوی دارالعلوم دیوبند2/122)

حدیث میں آتا ہے 

مشكاة المصابيح، باب الوسوسۃ (1/ 29)

وَعَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ فَقَالَ: «إِنِّي أهم فِي صَلَاتي فيكثر ذَلِك عَليّ فَقَالَ الْقَاسِم بن مُحَمَّد امْضِ فِي صَلَاتك فَإِنَّهُ لن يذهب عَنْكَ حَتَّى تَنْصَرِفَ وَأَنْتَ تَقُولُ مَا أَتْمَمْتُ صَلَاتي» . رَوَاهُ مَالك

ترجمہ:ایک آدمی نے سوال کیا کہ مجھے نماز میں بہت وہم ہوتا ہے۔فرمایا : اپنی نماز کو جاری رکھو کیونکہ یہ تم سے دور نہ ہوگا یہاں تک کہ تم نماز سے فارغ ہوجاؤاور تمھیں وہم ہو کہ میری نماز نہیں ہوئی

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 417)

فلو اشتغل قلبه بتفكر مسألة مثلا في أثناء الأركان فلا تستحب الإعادة: وقال البقالي: لم ينقص أجره إلا إذا قصر۔۔۔۔۔واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

الجواب صحیح

مفتی محمد انس عبدالرحیم عفا اللہ عنہ

اپنا تبصرہ بھیجیں