سوال: بچے کو اگر ماں کسی وجہ سے اپنا دودھ نہ پلا سکے تو کیا بچے کی نانی اسے(کسی وقت اپنا) دودھ پلا سکتی ہے(یعنی بچے کی ماں بھی پلائے اور بچے کی نانی بھی اور اگر ماں نہ پلا سکے تو صرف اسکی نانی اگر دو سال اسکی رضاعت کرے تو)تاکہ بچے کا اسکی نانی سے ماں جیسا تعلق ہو(اسکی رضاعت کرنے کی وجہ سے) اور(بچے کے اپنے ماں باپ کی علیحدگی کی صورت میں) بچے کا نانا اس کا باپ بن جائے؟
الجواب باسم ملہم الصواب
جی ہاں! ضرورت کےتحت بچے کی نانی بچے کو مدت رضاعت میں دودھ پلاسکتی ہے تاہم اس کے بعد بچے کی نانی، بچے کی رضاعی ماں بھی بن جائے گی اورپھر نانی کے حقیقی بچے اس دودھ پینے والے بچے کے رضاعی بہن بھائی ہوں گے۔ اور نانی کے نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں مستقبل میں اس بچے کےلیے بھتیجے بھتیجیاں اور بھانجا بھانجی بن جائیں گے لہذا ان کا نکاح اس بچے سے جائز نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات :
1۔يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعا فالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته وأخو الرجل عمه وأخته عمته وأخو المرضعة خاله وأختها خالته وكذا في الجد والجدة۔
(فتاوی الھندیہ: ج 1، ص343)
2۔قليل الرضاع وكثيره إذا حصل في مدة الرضاع تعلق به التحريم كذا في الهداية.
( فتاوی الھندیہ ج 1، ص 342)
———–
1۔سالم نے مدت رضاعت (دو سال کی عمر کے اندر) میں ماجدہ کا دودھ پیا ہو تو ماجدہ سالم کی رضاعی ماں ہوگئی، اور ماجدہ کا شوہر اس کا رضاعی باپ اور ماجدہ کی تمام اولاد چاہے سالم کو دودھ پلانے کے زمانے کی ہو یا اس سے پہلے یا اس کے کئی سالوں کے بعد کی ہو وہ سب سالم کے رضاعی بھائی بہن ہیں۔چاہے ماجدہ نے ان کو دودھ پلایا ہو یا نہ پلایا ہو اور ان سب کے درمیان نکاح حرام ہے۔
(فتاوى رحیمیہ: ج 3، ص231)
2۔جب بچے نے کسی عورت کا دودھ پیا تو وہ عورت اس کی ماں بن گئی اور اس انا کا شوہر جس کے بچے کا یہ دودھ ہے،اس بچے کا باپ ہو گیا اور اس کی اولاد اس کی دودھ شریک بہن بھائی ہو گئے اور نکاح حرام ہو گیا۔جو رشتے نسب کے اعتبار سے حرام ہے وہ رشتے دودھ کہ اعتبار سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔
(بہشتی زیور :ج 2، ص 287)
———-
واللہ اعلم بالصواب
18جنوری 2024
6رجب 1445