نئےسال کی خوشی منانےکاحکم

الجواب حامدا ومصلیا

١۔٢۔١٠۔١٣۔۔۔ نئے سال کی خوشی منانے اور مبارک باد کے پیغامات وغیرہ کا تبادلہ کرنے کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے، خصوصا شمسی سال کی ابتدا پر خوشی کا اظہار اہل مغرب اور غیر مسلموں کا طریقہ ہے۔ اس لیے کسی بھی قسم کا ایسا عمل (مثلا خوشی منانا، مبارک باد دینا، کارڈ بھیجنا، دعوت وغیرہ کا اہتمام کرنا، اشتہارات شائع کرنا، والدین کا اس موقع پر اولاد کو رقم اور خوشی کا تعاون فراہم کرنا) درست نہیں، جس سے ان کے طور طریقوں کی ترویج و تائید ہوتی ہے۔

فی مشکوة: (٤٨٧)

قال رسول اللہ ﷺ: من تشبہ بقوم فھو منھم (رواہ احمد و ابوداؤد) 

3۔۔۔عیسوی سال نو کے موقع پر فائرنگ کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ بے جا اسراف ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں تخویف اور وحشت پھیلانے کا سبب بھی ہے اور یہ تمام امور شرعا ممنوع ہیں، نیز اس سے ایذا رسانی اور بعض اوقات انسانی جان کا نقصان بھی ہوجاتا ہے، جو کہ سخت حرام ہے۔ لہذا اس سے اجتناب کرنا لازم اور ضروری ہے۔

4۔۔۔ اگر کوئی شخص کسی کی ہوائی فائرنگ کی زد میں آکر اتفاقا جاں بحق ہوجائے تو وہ اخروی اعتبار سے شہید ہوگا اور فائرنگ کرنے والے پر دیت و کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(ماخذ التبویب: ١٣٧١/٨٦)

فی الھدایة: ١٥٩/٤

5۔۔۔ کسی مسلمان کا اپنی دکان، مکان یا ہوٹل وغیرہ کسی مسلمان یا غیر مسلم کو شراب فروخت کرنے کے لیے یا ایسی تقریب کے لیے جس میں شراب کی محفلیں منعقد ہوں گی کرایہ پر دینا، گناہ پر مدد کرنا ہے۔ جس کی شرعا کوئی اجازت نہیں ہے۔ لہذا یہ صورت ناجائز ہے، اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

(ماخذ التبویب: ٦٠/٦١٦)

(فی الھندیة: ٤٤٩/٤)

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/permalink/989958011373444/

اپنا تبصرہ بھیجیں