نئے نوٹ اضافی رقم کے ساتھ بیچنے کا حکم

سوال:السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔

بینک سے جو گڈی ملتی ہے پیسوں کی مثلاً 10 والی گڈی 1000 کی ملتی ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ میں تمہیں یہ گڈی 1200 کی دونگا تو یہ اضافی پیسے سود کہلائیں گے یا نہیں؟

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!

ایک ملک کی کرنسی (نوٹ ،سکہ)جبکہ ان کی مالیت ایک ہی ہو تو ان کا تبادلہ بیع صرف کہلاتا ہےجس میں تبادلے کے وقت کمی بیشی کرنے کی صورت میں سود لازم آتا ہے جو جائز نہیں۔ چنانچہ 1000 روپے میں لی ہوئی 10 والی گڈی کو 1200 میں دینا جائز نہیں۔البتہ اس کے جواز کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:

۱۔گڈی لانے والا گڈی لانے سے پہلے لوگوں سے کہدے کہ میں بینک سےنئے نوٹوں کی گڈیاں لاؤں گا ،جس نے منگوانی ہیں میں اس سے اپنی محنت کے بدلے اتنی فیس لوں گا۔یہ صورت جائز ہے کیونکہ یہ وکالت کی فیس ہے،جو شرعاً درست ہے۔

۲۔گڈے لانے والانئے نوٹوں کے ساتھ کچھ کھانے پینے کی چیزبھی رکھ دے اور لوگوں سے کہدےکہ میں اس ایک ہزار اور کھانے کی چیز کو 1200کے بدلے میں دوں گا ۔یہ صورت بھی جائز ہے اس لیے کہ ایک ہزار کے بدلے ایک ہزار اور اضافی رقم کھانے پینے کی چیز کے بدلے ہوجائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) قال تعالیٰ:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(آل عمران:۱۳۰)

(٢)الربا في اللغۃ ہو الزیادۃ ۔ وفي الشرع : عبارۃ عن عقد فاسد بصفۃ سواء کان ہناک زیادۃ ، أو لا ۔ ألا تری أن بیع الدراہم بالدراہم نسیئۃ ربا ، ولیس فیہ زیادۃ ۔ والربا حرام بالکتاب والسنۃ ۔ أما الکتاب فقولہ تعالی : {وحرّم الربوا} ۔ وأما السنۃ فقولہ ﷺ : ’’ أکل درہم واحد من الربا أشد من ثلاث وثلاثین زنیۃ یزنیہا الرجل، ومن نبت لحمہ من حرام فالنار أولی بہ ‘‘ ۔ وقال ابن مسعود : ’’ آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدہ إذا علموا بہ معلونون علی لسان محمد ﷺ إلی یوم القیامۃ ‘‘ ۔ کذا في النہایۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قولہ : (فالعلۃ فیہ الکیل مع الجنس ، أو الوزن مع الجنس) ویقال : القدر مع الجنس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ قولہ : (وإذا وجدا حرم التفاضل والنساء) ۔

(الجوہرۃ النیرۃ:۱/۴۹۰ ، کتاب البیوع ، باب الربا ، ط : بیروت)

(٣) وإذا اتحد جنس العملات ، کالذہب بالذہب ، والفضۃ بالفضۃ ، والریال السعودي مثلاً بالریال السعودي ، والمصري بالمصري ، وجب شیئان : التساوي في المقدار ، والتقابض في مجلس العقد ، فإن اختل الشرطان أو أحدہما کان ربًا۔

(فقہ و فتاوی البیوع: ۲۸۶ ، حکم تجارۃ العملۃ)

(۴) ولو قال: أعطني نصف درہم فلوسا ونصفا إلا حبۃ جاز؛ لأنہ قابل الدرہم بما یباع من الفلوس بنصف درہم، وبنصف درہم إلا حبۃ فیکون نصف درہم إلا حبۃ بمثلہ وما وراء ہ بازاء الفلوس۔ (ہدایۃ، کتاب الصرف، أشرفیہ دیوبند ۳/ ۱۱۱)

(۵) “(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل …لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة”.

(درالحکام فی شرح مجلۃالاحکام:الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث،الفصل االاول،المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)

فقط واللہ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں