نکاح میں ولایت کس کو حاصل ہوگی؟

السلام علیکم

باپ دادا اور بیٹے کے بعد ولایت کس کو حاصل ہوتی ہے ؟

الجواب باسم ملھم الصواب

واضح رہے کہ جب تک بچہ اور بچی نابالغ رہتے ہیں تو اُن کے اوپر اُن کے اولیاء کو ولایت اور اختیار حاصل ہوتا ہے ؛ لیکن جب بچہ/بچی بالغ ہوجائیں، تو پھر حقِ ولایت بھی ختم ہوجاتا ہے ، اب اُس کے تصرفات اولیا کے بغیر بھی نافذ مانے جائیں گے۔

نابالغہ کے نکاح میں ولایت بالترتیب اُن لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو وراثت میں عصبہ بنفسہٖ بنتے ہیں ، یعنی :

( ۱ ) لڑکا ، پوتا ، پڑپوتا ، وغیرہ۔

( ۲ ) باپ ، دادا ، وغیرہ۔

( ۳ ) بھائی ، بھتیجا الیٰ آخرہ۔

( ۴ ) چچا اور اُس کی اولاد ۔

اور اگر لڑکی کا کوئی عصبہ رشتہ دار موجود نہ ہو تو نکاح کی ولایت اُس کی ماں کو حاصل ہوگی۔ ماں نہ ہو تو دادی کو اور دادی بھی نہ ہو تو نانی کو ولایت حاصل ہوگی ۔

____________

حوالہ جات

1.وأقرب الأولیاء إلی المرأۃ الابن ثم ابن الابن وإن سفل ، ثم الأب ثم الجد أب الأب ، وإن علا کذا في المحیط ۔ ( الفتاویٰ الہندیۃ / الباب الرابع في الأولیاء 1 ؍ 283 زکریا )

2.قال الحنفیۃ : الولایۃ ہي ولایۃ الإجبار فقط ، وتثبت للأقارب العصبات الأقرب فالأقرب ؛ لأن النکاح إلی العصبات ، کما روي عن علي رضي اللّٰہ عنہ وذٰلک علی الترتیب الآتي : البنوۃ ثم الأبوۃ ثم الإخوۃ ثم العمومۃ ۔ ( الفقہ الإسلامي وأدلتہ 7؍ 200 )

3۔ویقدم ابن المجنونۃ علی أبیہا ۔ ( الدر المختار 4 ؍ 191 زکریا ، الفتاویٰ التاتارخانیۃ 4؍ 89رقم : 5612 زکریا ، مجمع الأنہر 1؍ 496، الفتاویٰ الہندیۃ 1 ؍ 283)

4.والولي ہو العصبۃ نسبًا أو سببًا علی ترتیب الإرث وابن المجنونۃ مقدم علیٰ أبیہا ۔ ( مجمع الأنہر / باب الأولیاء والأکفاء 1؍ 496-497مکتبۃ فقیہ الأمۃ دیوبند )

5.فإذا کان للمجنونۃ أب وابن أو جد وابن ، فالولایۃ للابن عندہما ۔ ( الفتاویٰ الہندیۃ 1؍ 283زکریا )

6.وإذا اجتمع في المجنونۃ أبوہا وابنہا ، فالولي في نکاحہا ابنہا في قول أبي حنیفۃ وأبي یوسف ، لأن الابن ہو المقدم في العصوبۃ ۔ ( الفقہ الإسلامي وأدلتہ 7 ؍ 202)

7.فإن لم یکن عصبۃ فالولایۃ للأم ثم لأم الأب ( الدر المختار ) فتحصل بعد الأم أم الأب ثم أم الأم ۔ ( الدر المختار مع الشامي 4؍ 195 زکریا ، الفقہ الإسلامي وأدلتہ 7 ؍ 201، مجمع الأنہر 1؍ 497مکتبۃ فقیہ الأمۃ دیوبند ، البحر الرائق )

واللہ اعلم بالصواب

22/6/1443

26/1/2022

اپنا تبصرہ بھیجیں