آن لائن کاروبار کاحکم

السلام عليكم و رحمة الله و بركاته. باجی کسی نے پوچھا ہے کہ.

1: حضرت جی آنلائن کاروبار کرنا جائز ہے؟ 

جبکہ چیز قبضہ میں نہ بلکہ تصویر دکھا کر سودا کیا جائے؟ پهر آرڈر ملے تو دکان سے لے کر پهر بهیجا جائے؟ کیا اس طرح صحیح ہے آنلائن کاروبار کرنا؟

نیز اسمیں سوال یہ بهی ہے کہ.

2 : محترم مفتی صاحب آنلاٸن شاپنگ کا کام ہے 

زید نے عمرو سے کہاکہ تم میری چیزیں سیل کرو تو میں تمھیں ایک آرڈر پر 200 کا پرافٹ دوں گا۔

اب عمرو نے یہ شروع کیا لیکن عمرو کے پاس کسی بھی چیز کا قبضہ نہیں ہے۔اور وعدے کے مطابق زید عمرو کو ہر آرڈر پر 200 کا پرافٹ دے رہا۔

تو پوچھنا یہ تھا کہ یہ حلال ہے 

200 کا پرافٹ عمرو کے لیے لینا جاٸز ہے؟

جواب:

1: آن لائن کاروبار میں اگر “مبیع” (جوچیزفروخت کی جارہی ہو)بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار ،تصویردکھلاکر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو (یعنی سودا کرتے وقت یوں کہے کہ “فلاں چیز میں نے آپ کو اتنے میں بیچی”، وغیرہ) اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں “مبیع” موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو وہ بائع کی ملکیت میں ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے۔

اس کے جواز کی صورتیں درج ذیل ہیں:

1۔ بائع مشتری سے یہ وعدہ کرلے کہ یہ سامان میری ملکیت میں نہیں ، اگر آپ کو چاہیے تو میں اسے خرید کرآپ کو اتنی قیمت میں فروخت کرسکتاہوں، یوں بائع اس سامان کوخرید کر اپنے قبضہ میں لے کر باقاعدہ سودا کرکے مشتری کو فروخت کرے تو یہ درست ہے کیونکہ وعدہ بیع منع نہیں۔

2۔ آن لائن کام کرنے والا فرد یا کمپنی ایک فرد (مشتری) سے آرڈر لے اورمطلوبہ چیز کسی دوسرے فرد یا کمپنی سے لے کر خریدار تک پہنچائے اور اس عمل کی اجرت مقرر کرکے لے تو یہ بھی جائز ہے۔ یعنی بجائے اشیاء کی خرید وفروخت کے بروکری کی اجرت مقرر کرکے یہ معاملہ کرے۔ بروکری کا یہ معاملہ کسٹمر سے بھی کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ کمپنی سے بروکری لے۔

3۔ اگر مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو اور تصویر دکھلا کر سودا کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں بھی آن لائن خریداری شرعاً درست ہوگی۔ البتہ جواز کی ہر صورت میں خریدار کو مطلوبہ چیز ملنے کے بعد خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، یعنی جب “مبیع” خریدار کو مل جائے تو دیکھنے کے بعد اس کی مطلوبہ شرائط کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں اسےواپس کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔

الفتاوى الهندية – (20 / 203):

“شراء ما لم يره جائز، كذا في الحاوي. وصورة المسألة أن يقول الرجل لغيره: بعت منك هذا الثوب الذي في كمي هذا، وصفته كذا، والدرة التي في كفي هذه، وصفتها كذا أو لم يذكر الصفة، أو يقول: بعت منك هذه الجارية المنتقب … وإن أجازه قبل الرؤية لم يجز وخياره باق على حاله، فإذا رآه إن شاء أخذ وإن شاء رده، هكذا في المضمرات”.

الفتاوى الهندية – (20 / 288):

“خيار العيب يثبت من غير شرط، كذا في السراج الوهاج. وإذا اشترى شيئًا لم يعلم بالعيب وقت الشراء ولا علمه قبله والعيب يسير أو فاحش فله الخيار إن شاء رضي بجميع الثمن وإن شاء رده، كذا في شرح الطحاوي. وهذا إذا لم يتمكن من إزالته بلا مشقة، فإن تمكن فلا كإحرام الجارية”.

2 : یہ بروکری ہے۔ عمرو کا اس طرح کمیشن لینا جائز ہے بشرطیکہ کسٹمر کو اوپر بتائے گئے طریقوں میں سے کسی کے مطابق سامان فراہم کرے ۔

▪️وقال النبي صلی اﷲ علیہ وسلم: المسلمون عند شروطہم۔ (صحیح البخاري، کتاب الإجارۃ، باب أجر السمسرۃ تعلیقا، النسخۃ الہندیۃ۱/۳۰۳)

▪️ “قَالَ فِي التتارخانية: وَفِي الدَّلَّالِ وَالسِّمْسَارِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ، وَمَا تَوَاضَعُوا عَلَيْهِ … وَفِي الْحَاوِي: سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أُجْرَةِالسِّمْسَارِ؟ فَقَالَ: أَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ كَانَ فِي الْأَصْلِ فَاسِدًا؛ لِكَثْرَةِ التَّعَامُلِ، وَكَثِيرٌ مِنْ هَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، فَجَوَّزُوهُ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَيْهِ…‘‘ الخ ( مَطْلَبٌ فِي أُجْرَةِ الدَّلَّالِ ، ٦/ ٦٣، ط: سعيد)

وفیه أیضاً: ’’وَأَمَّا أُجْرَةُ السِّمْسَارِ وَالدَّلَّالِ فَقَالَ الشَّارِحُ الزَّيْلَعِيُّ: إنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً فِي الْعَقْدِ تُضَمُّ‘‘. (ه/ ١٣٦)

فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

اپنا تبصرہ بھیجیں