اونٹ کے پیشاب سے علاج

سوال: سوال: ہماری بیٹی 14/15 سال کی ہے، کینسر کی مریضہ ہے، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ ہمیں کافی لوگوں نے الگ الگ بتایا ہے کہ اونٹ کے ایک کپ دودھ میں ایک چمچہ اونٹ کا پیشاب ملا کر بچی کو دیں ان شاءاللہ اس سے شفاء ہوگی۔ اس سے بڑے لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔
تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ عمل حدیث سے بھی ثابت ہے، سنت عمل ہے۔
الجواب باسم ملھم الصواب

جی ہاں! مذکورہ بات صحیح بخاری میں موجود ہے۔تاہم محدثین نے مذکورہ روایت کی درج ذیل توجیہات بیان کی ہیں:
1: یہ حکم عام نہیں تھا، بلکہ قبیلہ عرینیہ کہ ضرورت کے پیش نظر ان کے ساتھ مخصوص تھا۔
2: رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی بتادیا گیا تھا کہ ان کی شفا اس کے علاوہ نہیں ہے۔یہ حکم عام نہیں تھا۔
لہذا فقہائے احناف کے نزدیک اونٹ سمیت تمام جانوروں کا پیشاب انسان کے پیشاب کی طرح ناپاک ہے اور پیشاب پینا بھی ناجائز ہے۔ البتہ اضطرار اور شدید مجبوری میں تین شرائط کے ساتھ اس کے استعمال کی گنجائش ہوگی:
1۔ مرض کی نوعیت ایسی ہے کہ اس حرام شے سے ہی شفا کی امید ہے، بصورت دیگر جان کا خطرہ ہے۔
2۔ اس حرام چیز کو بطور دوا کے استعمال کرنے کا مشوره ماہر اور دیانت دار طبیب نے دیا ہو۔
3۔بیماری سے افاقہ ہوتے ہی اس دوا کا استعمال ترک کردیا جائے۔
لہذا اگر کوئی مسلمان ، دین دار ماہر ڈاکٹر یہ کہے کہ اب آپ کی بیٹی کا علاج اونٹ کے پیشاب کے علاوہ کسی جائز یا حلال دوا سے ممکن نہیں ہے تو شدید ضرورت کی حالت میں بقدر ضرورت اس سے بیٹی کا علاج کرنے کی گنجائش ہوگی۔
========================
حوالہ جات:
1۔ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
( سورة البقرة 173 )
ترجمہ : اس نے تو تم پر صرف مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز حرام کی ہے جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے، پھر جو مجبور کردیا جائے، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

2۔ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «أَنَّ نَاسًا اجْتَوَوْا فِي المَدِينَةِ، فَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَلْحَقُوا بِرَاعِيهِ – يَعْنِي الإِبِلَ – فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَلَحِقُوا بِرَاعِيهِ، فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، حَتَّى صَلَحَتْ أَبْدَانُهُمْ، فَقَتَلُوا الرَّاعِيَ وَسَاقُوا الإِبِلَ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ فِي طَلَبِهِمْ فَجِيءَ بِهِمْ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ، وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ» قَالَ قَتَادَةُ: فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ: «أَنَّ ذَلِكَ كَانَ قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الحُدُودُ»
(صحیح البخاری: 5686)
ترجمہ: حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ مدینہ میں چند لوگوں نے (مدینہ طیبہ کی) آب وہوا کو ناموافق پایا تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”وہ آپ کے چرواہے کے پاس چلے جائیں۔“ یعنی اونٹنیوں کے باڑے میں قیام رکھیں وہاں ان کا دودھ نوش کریں اور ان کا پیشاب بھی پئیں، چنانچہ وہ لوگ آپ کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور انہوں نے وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جب ان کے جسم صحت مند ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے ان کے تعاقب میں آدمی بھیجے، جب انہیں پکڑ کر لایا گیا تو آپ کے حکم سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں قتادہ نے کہا: مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا: یہ حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔

3۔ وقال أبو حنيفة والشافعي وأبو يوسف وأبو ثور وآخرون كثيرون: الأبوال كلها نجسة إلا ما عفي عنه، وأجابوا عنه بأن ما في حديث العرنيين قد كان للضرورة، فليس فيه دليل على أنه يباح في غير حال الضرورة؛ لأن ثمة أشياء أبيحت في الضرورات ولم تبح في غيرها، كما في لبس الحرير؛ فإنه حرام على الرجال وقد أبيح لبسه في الحرب أو للحكة أو لشدة البرد إذا لم يجد غيره، وله أمثال كثيرة في الشرع، والجواب المقنع في ذلك أنه عليه الصلاة والسلام، عرف بطريق الوحي شفاهم، والاستشفاء بالحرام جائز عند التيقن بحصول الشفاء، كتناول الميتة في المخصمة، والخمر عند العطش، وإساغة اللقمة، وإنما لايباح ما لايستيقن حصول الشفاء به. وقال ابن حزم: صح يقيناً أن رسول الله صلى الله عليه وسلم إنما أمرهم بذلك على سبيل التداوي من السقم الذي كان أصابه، وأنهم صحت أجسامهم بذلك، والتداوي منزلة ضرورة. وقد قال عز وجل: {إلا ما اضطررتم إليه} (الأنعام: 119) فما اضطر المرء إليه فهو غير محرم عليه من المآكل والمشارب. وقال شمس الائمة: حديث أنس رضي الله تعالى عنه، قد رواه قتادة عنه أنه رخص لهم في شرب ألبان الإبل. ولم يذكر الأبوال، وإنما ذكره في رواية حميد الطويل عنه، والحديث حكاية حال، فإذا دار بين أن يكون حجةً أو لايكون حجةً سقط الاحتجاج به، ثم نقول: خصهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك لأنه عرف من طريق الوحي أن شفاءهم فيه ولايوجد مثله في زماننا، وهو كما خص الزبير رضي الله تعالى عنه بلبس الحرير لحكة كانت به، أو للقمل، فإنه كان كثير القمل، أو لأنهم كانوا كفاراً في علم الله تعالى ورسوله عليه السلام علم من طريق الوحي أنهم يموتون على الردة، ولايبعد أن يكون شفاء الكافر بالنجس. انتهى. فإن قلت: هل لأبوال الإبل تأثير في الاستشفاء حتى أمرهم صلى الله عليه وسلم بذلك؟ قلت: قد كانت إبله صلى الله عليه وسلم ترعى الشيح والقيصوم، وأبوال الإبل التي ترعى ذلك وألبانها تدخل في علاج نوع من أنواع الاستشفاء، فإذا كان كذلك كان الأمر في هذا أنه عليه الصلاة والسلام عرف من طريق الوحي كون هذه للشفاء، وعرف أيضاً مرضهم الذي تزيله هذه الأبوال، فأمرهم لذلك، ولايوجد هذا في زماننا، حتى إذا فرضنا أن أحداً عرف مرض شخص بقوة العلم، وعرف أنه لايزيله إلا بتناول المحرم، يباح له حينئذ أن يتناوله، كما يباح شرب الخمر عند العطش الشديد، وتناول الميتة عند المخمصة، وأيضاً التمسك بعموم قوله صلى الله عليه وسلم: (استنزهوا من
البول؛ فإن عامة عذاب القبر منه) أولى؛ لأنه ظاهر في تناول جميع الأبوال، فيجب اجتنابها لهذا الوعيد، والحديث رواه أبو هريرة وصححه ابن خزيمة وغيره مرفوعاً”.
(عمدة القاری: 3/230)

4۔ (ولا یشرب ) بوله ( اصلا ) لا للتداوی ولا لغيره عند ابی حنيفة ۔
(فروع ) : اختلف في التداوي بالمحرم ، و ظاهر المذہب المنع كما في رضاع البحر ، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن
” الحاوي“ : وقیل يرخص اذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان ، وعليه الفتوى ۔
و قال العلامة الشامی تحتہ:
قوله ( اختلف التراوي بالمحرم ) ففی”النھایۃ“ عن” الذخيره“ : يجوز ان علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر وفي” الخانية“ في معنى قوله عليه السلام :
” ان الله لم يجعل شفاء كم فيما حرم عليكم“كما رواه البخاري ان مافيه شفاء لاباس يه ، كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة ،و كذا اختاره صاحب الهداية في”التنجيس“ فقال : لورعف فکتب الفاتحه بالدم علی جبهة وانفه جاز للاستشفاء، وبا البول ايضا ان علم فيه شفاء لاباس به ، لکن لم ينقل وهذا لان الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الحمر والميته للعطشان والجائع من”البحر” و افاد سيدي عبدالغني انه لا يظهر الاختلاف في کلا مهم لا تفاقهم علی جواز للضرورة ۔
(ردالمحتار علی الدرالمختار : 1 / 405 )

5- الضرورات تبیح المحظور ات
(مجلة الاحکام العدلية : 18)

واللہ اعلم بالصواب

25 شوال 1444ھ
15 مئی 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں