بیرون ممالک جانے کے لیےمیڈیکل انشورنس کروانے کا حکم

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:115

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیا ِنِ عظام اس  مسئلہ کے متعلق کہ:

آسٹریلیا میں یہ قانون ہے کہ جو شخص کسی مقصد (مثلاًوزٹ وغیرہ) کے لیے وہاں جاتا ہے تو اسے میڈیکل انشورنس کرانا لازم ہے ،جس کے بعد اس کے بیمار ہونے کی صورت میں علاج و معالجہ کا سارا خرچ اور ہسپتال کے بلوں کی ادائیگی انشورنس کمپنی کرتی ہے جس کا  طریقہ یہ ہے کہ آسٹریلیا کے ویزے کے طلب گار کو ایک فارم پُر کرنا پڑتا ہے ،جس میں ایک شرط یہ لکھی ہوتی ہے کہ ویزے کے حصول کے لیے میڈیکل انشورنس کرانا ضروری ہے ،یہ شرط منظور کرنے ،انشورنس کمپنی کے فارم پر دستخط کرنے اور ہر پریمیم کی ادائیگی کے بعد حکومت ویزا جاری کرتی ہے۔

بیمار نہ ہونے کی صورت میں ادا کردہ رقم واپس نہیں ملتی اور بیمار ہونے کی صورت میں مریض اپنا علاج کسی ہسپتال سے کراتا ہے اور علاج ومعلجہ سے فارغ ہونے کے پر ہسپتال والوں کو انشورنس کمپنی کا معاہدہ اور کارڈ دکھاتا ہے ،جس پر ہسپتال والے اس سے رقم لینے کےبجائےخرچے کا بل دے دیتے ہیں ،یہ بل وہ انشورنس کمپنی کے دفتر جمع کراتا ہے ،پھر اس کی ادائیگی کمپنی کرتی ہے۔اور اگر کوئی شخص کسی (جائز و ناجائز )طریقے سے میڈیکل انشورنس کرائے بغیر چلا بھی جائے تو اسے یہ مشکل پیش آتی ہے کہ وہاں علاج ومعالجہ بہت مہنگا ہے ۔انشورنس کرائے بغیر علاج کے خرچے کو برداشت کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔

اب جو مسلمان لوگ وہاں مقیم ہیں انہیں ملنے کے لیے پاکستان یا کسی مسلمان ملک سے لوگ آتے ہیں جس میں ان کے بوڑھے والدین اور دیگر رشتہ دار بھی ہوتے ہیں،ان کو قانوناًمیڈیکل انشورنس کرانا پڑتی ہے کہ کہیں خدانخواستہ پڑ گئے تو علاج و معالجہ کا بھاری خرچ اٹھانا پڑے گا ۔

اب شریعت کی رو سے ایسی مجبوری کی حالت میں میڈیکل انشرنس کرانا جائز ہے؟

پریمیم ادا کردہ رقم سے زائد رقم (جو علاج میں خرچ ہوئی) جسے انشورنس کمپنی ادا کرتی ہے تو کیا انشورنس کرانے والے کو وہ زائد رقم صدقہ کرنا واجب ہے،جب کہ اس زائد رقم کا ادا کرنااس کے لیے ممکن نہیں ہے،صرف چند لوگ ہی اسے ادا کر سکتے ہیں ۔

                                                                                                                                                                          محمد عمران آسٹریلیا

الجواب حامداً و مصلیاً

مذکورہ میڈیکل انشورنس کا اصل حکم یہ ہے کہ یہ قمار(جوا)اور غرر(غیر یقینی صورتِ حال) کی وجہ سے شرعاً جائز نہیں۔

لیکن اگر بیرونِ ملک سفر ضروری ہو اور قانوناً میڈیکل انشورنس کے بغیر سفر میں جانا قانوناً ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں مجبوراً مذکورہ میڈیکل انشورنس کرانے کی گنجائش ہے۔(ماخذہ فتاوی عثمانی 3/335)اور جہاں تک اس کا تعلق ہے کہ اگر اپنے پریمیم سے زائد رقم کا علاج کرائے تو اس کا صدقہ کرنا واجب ہے یا نہیں ؟تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم ملک ویزے پر جائے اور وہاں کی کسی غیر مسلم انشورنس کمپنی سے میڈیکل کرانا پڑے تو اصل حکم یہی ہے کہ پریمیم سے زیادہ بل کی جتنی رقم انشورنس کمپنی نے ادا کی ،اتنی رقم صدقہ کردی جائے ،البتہ اگر پریمیم سے زائد رقم صدقہ نہ کرے تو حرج کی وجہ سے اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے (عملاً بقول الطرفین رحمھما اللہ بجواز اخذ مال الحربی برضاہ فی دار الحرب)لیکن اگر صدقہ بآسانی ممکن ہو تو پریمیم سے زائد رقم صدقہ کردی جائے۔

الھدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی ـ (3/65)

قال:”و لا بین المسلم و الحربی فی دار الحرب” خلافا لابی یوسف و الشافعی رحمھما اللہ۔ لھما العتبار بالمستاْمن منھم فی دارنا و لنا قولہ علیہ الصلاۃ و السلام:”لا ربا بین المسلم و الحربی فی دار الحرب” ولان مالھم مباح فی دارھم فبای طریق اخذھا المسلم اخذ مالا مباحا اذا لم یکن فیہ غدر

الدر المختار ـ (5/186)

(و لا بین حربی و مسلم)مستاْمن و لو بعقد فاسد او قمار(ثمۃ) لان مالہ ثمۃ مباح فیحل برضاہ مطلقا بلا غدر خلافا للثانی و 

الثلا ثۃ۔  

حاشیۃ ابن عابدین(رد المخت

(قولہ و لا بین حربی و مسلم مستاْمن) احتزر بالحربی عن المسلم الاصلی و الذمی،و کذا عن المسلم الحربی اذا ھاجر الینا ثم عاد الیھم،فانہ لیس للمسلم ان یرابی معہ اتفاقا کما یذکرہ الشارح،و وقع فی البحر ھنا غلط حیث قال:و فی المجتبی مستاْمن منا باشر مع رجل مسلما کان او ذمیا فی دارھم او من اسلم ھناک شیئا من العقود التی لا یجوز فیما بیننا کالربویات و بیع المیتۃ جاز عندھما خلافا لابی یوسف اھ فان مدلولہ جواز الربا بین مسلم اصلی مع مثلہ او مع ذمی ھنا، و ھو غیر صحیح لما علمتہ من مسالۃ المسلم الحربی،و الذی رایتہ فی المجتبی ھکذا مستاْمن من اھل دارنا مسلما کان او ذمیا فی دارھم او من اسلم ھناک باشر معھم من العقود التی تجوز الخ و ھی عبارۃ صحیحۃ فما فی البحر تحریف فتنۃ۔

(قولہ لان مالہ ثمۃ مباح)قال فی فتح القدیر:لا یخفی ان ھذا التعلیل انما یقتضی حل مباشرۃ العقد اذا کانت الزیادۃ ینالھا

 المسلم۔۔۔۔۔۔۔قلت:ویدل علی ذلک ما فی السیر الکبیر و شرحہ حیث قال:و اذا دخل المسلم دار الحرب بامان،فلا باْس باَن یاْخذ منھم اموالھم بطیب انفسھم بای وجہ کان لانہ انما اخذ المباح علی وجہ عری عن الغدر فیکون ذلک طیبا لہ و الاسیر و المستاْمن سواء حتی لو باعھم درھما بدرھمین او باعھم میتۃ بدراھم او اخذ مالا منھم بطریق القمار فذلک کلہ طیب لہ اھ ملخصا۔

فانظر کیف جعل موضوع المساَلۃ الاخذ من اموالھم برضاھم،فعلم ان المراد من الربا و القمار فی کلامھم ما کان علی ھذا الوجہ و ان کان اللفظ عاما لان الحکم یدور مع علتہ غالبا

بدائع الصنائع،دارالکتب العلمیۃ ـ (5/192)

و اما شرائط جریان الربا(فمنھا)ان یکون البدلان معصومین،فان کان احدھما غیر معصوم لا یتحقق الربا عندنا،و عند ابی یوسف ھذا لیس بسرط،و یتحقق الربا،و علی ھذا الاصل یخرج ما اذا دخل مسلم دار الحرب تاجرا الاسلام انہ یجوز عند ابی حنیفۃ و محمد،و عند ابی یوسف لا یجوز

البحر الرائق،دارالکتاب الاسلامی ـ (1/202)

و فی معراج الدرایہ معزیا الی فخر الائمۃ لو افتی مفت بشیء من ھذہ الاقوال(ای اقوال ضعیفۃ)فی مواضع الضرورۃ طلبا للتیسیر کان حسنا اھ۔

و فی اصول الافتاء و آدابہ للشیخ محمد تقی العثمانی(ص:198)

و لکن صرح عدۃ من الفقھاء بانہ قد یجوز العمل او الافتاء بروایۃ ضعیفۃ او قول مرجوح لضرورۃ اقتضت ذلک،و حاصل کلامھم انہ لا یجوز الاخذ بالاقوال الضعیفۃ بالتشھی،و لکن اذا ابتلی الرجل بحاجۃ ملحۃ وسع لہ ان یعمل لنفسہ بقول ضعیف او روایۃ مرجوحۃ

(و قال فی ص:200)و حاصل ما ذکرہ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی ان العمل بالمرجوح یجوز فی حالتین:

الاولی:حالۃ الضرورۃ و دفع الحرج الشدید،

الثانیۃ:اذا کان المفتی من اھل الاجتھاد فی المذھب،و ان کان اجتھادہ جزئیا

مجلۃ الاحکام العدلیۃ ـ (1/19)

(المادۃ:32):الحاجۃ تنزل منزلۃ الضرورۃ عامۃ او خاصۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔و اللہ سبحانہ و تعالٰی اعلم

   محمد فیصل کراچوی عفی عنہ 

    دارالافتاء جامعۃ دارالعلوم کراچی                   

  9 /ربیع الثانی/1437ھ         

  19/جنوری/2016ء 

        

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/547459765623273/

 

اپنا تبصرہ بھیجیں