پاکستان کی خارجہ پالیسی۔ پانچویں قسط

پاکستان کے لئے خطرناک ممالک

(03) بھارت پاکستان کے دشمن ممالک میں تیسرے نمبر پر آتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسا کھلا ڈلا دشمن ہے جس کی ناک کے بال کھینچ کھینچ کر ہم اسے پاگل کر سکتے ہیں لیکن گیدڑ بھپکیوں سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اگر بڑھ بھی جائے تو اس کی دشمنی پر پاکستان میں مکمل قومی اتفاق رائے موجود ہے اور س کی طبیعت صاف کرنے کے لئے ہمارے پاس ہر طرح کے کیل کانٹے موجود ہیں۔ اس کے برخلاف اسرائیل ایک ایسا دشمن ہے جو خود ایک ایٹمی طاقت بھی ہے اور پاکستان کے دشمن نمبر دو سے اس کے خفیہ تعلقات بھی قائم ہیں۔ دشمن نمبر تین کے اس سے چالیس سال تک خفیہ اور اب پچھلے 23 سال سے ایسے کھلے تعلقات ہیں جن کا ہدف پاکستان ہی ہے اور دشمن نمبر چار یعنی امریکہ تو اسکا باپ تایا چاچا اور ماماسب کچھ ہے اسی لئے وہ پاکستان کا سب سے خطرناک دشمن ہے اور پہلے نمبر پر موجود ہے۔ ایران دوسرے نمبر پر اس لئے ہے کہ وہ آستین کا ایسا سانپ ہے جو کھل کر سامنے نہیں آتا ۔ وہ کمر میں چھرا گھونپنے کی پالیسی رکھنے والا ایسا ملک ہے جسے پاکستان کے اندر سے بہت بڑی تعداد میں ایجنٹ دستیاب ہیں اور جسے دشمن ڈیکلیئر کرنے کی صورت میں بھارت جیسا قومی اتفاق رائے نہیں بن سکتا کیونکہ ایران ایک مثبت ذہن رکھنے والے پاکستانی شیعہ کے لئے بھی ایک قابل احترام مقام ہے جو قابل فہم بات ہے اور اس پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہونا چاہئے۔ جنرل موسیٰ خان 65ء کی جنگ میں پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف تھے۔ انہوں نے پوری دلیری سے اس جنگ میں آرمی کی کمانڈ کی، بعد میں گونر بلوچستان بھی رھے، اپنی کتاب اور الطاف حسن قریشی کو دیئے گئے انٹرویو میں 65ء کی جنگ میں آرمی میں موجود قادیانی افسران کی سازشوں کو بے نقاب بھی کیا۔ خلاصہ یہ کہ وہ ایک سچے کھرے پاکستانی تھے لیکن دفن ہونا انہوں نے ایران میں پسند کیا کیونکہ بطور شیعہ ایران انکے لئے ایک قابل احترام مقام تھا۔ ان کا وہاں دفن ہونا باالکل اسی طرح قابل فہم ہے جس طرح باچا خان کا جلال آباد میں دفن ہونا۔

بھارت کے حوالے سے آپ سب کچھ جانتے ہیں۔ اس لئے اس میں زیادہ تفصیل کی ضرورت ہی نہیں البتہ دو تین ایسے پہلوؤں کی جانب متوجہ کرنا چاہونگا جو اہم ہیں۔ بھارت سے ہماری دشمنی کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ دو قومی نظریے میں ہندو ایک حریف ڈیکلیئر ہوا قائد اعظم کا یہ کہنا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے یہ ہندوؤں کی عزت نفس مجروح کر گیا ہے جس کا غصہ مٹ نہیں رہا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ ایک محفل میں بیٹھے ہوں اور ایک صاحب سب کے سامنے کہدیں کہ میں ان کے ساتھ صوفے پر نہیں بیٹھونگا، مجھے کوئی الگ نشست دی جائے، ظاہر ہے آپ تذلیل ہی محسوس کرینگے۔ دوسری بات یہ کہ کشمیر پر ہمارا ان سے درینہ تنازعہ ہے۔ تمامتر تلخیوں کے باوجود دونوں جانب اس بات کا ادراک ہے کہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کے سبب دونوں ملکوں کے عوام کا ایک دوسرے سے کٹے رہنا ممکن ہی نہیں۔ مثلا پہلی یہ کہ پاکستان میں لگ بھگ ایک کڑوڑ ایسے مہاجر ہیں جن کے خاندانوں کا ایک بڑا حصہ آج بھی انڈیا میں آباد ہے۔ یہ خونی رشتے ہیں جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتے، دونوں جانب کے ان خاندانوں کا دونوں ممالک میں آنا جانا روز کا معمول ہے۔ دوسری یہ کہ سکھ مذہب کے گیارہ مقدس مقامات پاکستان میں واقع ہیں، اپنی مذہبی رسومات کے لئے نہ صرف بھارت سے بلکہ دنیا بھر سے سکھوں کو پاکستان آنا ہی آنا ہے۔ تیسری یہ بریلوی مکتبہ فکر کا مرکز انڈیا میں ہے ایک راسخ العقیدہ بریلوی اس مقام پر جانا اپنے لئے سعادت سمجھتا ہے۔ چوتھی یہ کہ دیوبندی مکتبہ فکر کا مرکز بھی انڈیا ہی میں ہے، ہر راسخ العقیدہ دیوبندی دارالعلوم دیوبند دیکھنا چاہتا ہے۔ پانچویں یہ کہ برصغیر میں ماڈرن ایجوکیشن کی جنم بھومی علی گڑھ یونیورسٹی بھی انڈیا میں ہے جو مسلمانوں کے لئے ایک علمی استعارے کا درجہ رکھتی ہے۔ اسے قریب سے دیکھنے کا شوق بھی ہر طرف موجود ہے۔ چھٹی یہ کہ سندھ میں ہندوؤں کی بہت نمایاں آبادی ہے جو اپنی مذہبی رسومات کے لئے بھارت جائے بغیر نہیں رہ سکتے۔

یہ چھ انسانی قدریں دونوں ہی ممالک کے لئے ایک ایسا پریشر بنائے رکھتی ہیں جس کے تحت یہ خواہش دونوں ہی جانب پائی جاتی ہے کہ یہ دشمنی ختم ہو اور لوگوں کی آزادانہ آمد و رفت شروع ہو لیکن دونوں ہی ممالک کشمیر سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ بھارت اس لئے کہ اسے پاکستان پر سٹریٹیجک بالادستی حاصل ہی کشمیر کے ذریعے ہے جبکہ پاکستان اس لئے کہ ایک تو وہ پاکستان کی شہ رگ ہے اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ لاکھوں کشمیری پاکستان کے روحانی شہری ہیں۔ وہ آج بھی پاکستان کا پرچم پہلے عقیدت سے چومتے اور پھر لہراتے ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں کڑی سزا سے گزرنا پڑتا ہے اور وہ اس سزا سے گزر لیتے ہیں اور سزا ہی کیا جان سے بھی گزر جاتے ہیں لیکن پاکستان سے اپنی وابستگی کسی صورت نہیں چھوڑتے۔ 68 سال کی ان قربانیوں اور محبتوں کو پاکستان کیسے نظر انداز کر سکتا ہے ؟ مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں ہی ممالک دوستی چاہتے ہیں لیکن کشمیر کا مسئلہ حل ہونا نہایت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ اس مسئلے کو نظر انداز کرکے کوئی حل نکالا جائے اور وہ نظر انداز اس لئے کروانا چاہتا ہے تاکہ اس کا ناجائز قبضہ برقرار رہ سکے اور یہ پاکستان کسی صورت قبول کر نہیں سکتا۔

نواز شریف کے حالیہ دور میں پاک چائنا اکنامک کوریڈور کا جو عظیم الشان منصوبہ شروع ہوا ہے اس کے پورا ہونے پر نہ صرف چائنہ کی ساری دنیا سے ایکسپورٹس اور امپورٹس اس روٹ سے شرع ہو جائینگی جس سے چائنہ کو سالانہ اربوں ڈالرز کی بچت ہوگی بلکہ پاکستان کے لئے بھی معاشی ترقی کے لامتناہی امکانات پیدا ہو جائینگے۔ اور یہ صرف اس ایک روٹ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ افغانستان کا امن ہر حال میں یقینی بنا کر وسطی ایشیا کو بھی اس روٹ سے جوڑ دیا جائے گا جہاں جانے کے لئے بھارت پوری طرح بیقرار ہے۔ یہ روٹ جوں جوں تکمیل تک پہنچے گا بھارتی صنعتکاروں کا دباؤ اپنی حکومت پر اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا اور انشاء اللہ وہ دن آے گا کہ بھارت کو لامتناہی تجارتی مفادات اور کشمیر میں سے کسی ایک کو چننے کا فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔ اس پروجیکٹ کی اس بے پناہ اہمیت کے سبب امریکہ، بھارت اور ایران تینوں ہی اس کے دشمن ہیں۔ اسے پورا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہر پاکستانی کو نہ صرف اس کی کامیابی کے لئے دعاء گو رہنا ہوگا بلکہ آنکھیں بھی کھلی رکھنی ہونگی۔ آپ دیکھ چکے کہ چائنیز صدر کا دورہ پاکستان دوبار ناکام بنایا جاچکا اور ایسا ان لوگوں کے ذریعے کروایا گیا جو ہماری اپنی ہی صفوں میں موجود ہیں۔ اب بالآخر آٹھ اپریل کو چائنیز صدر پاکستان آ رہے ہیں جو پاک چاائنا ریلیشنز کی تاریخ کا سب سے اہم ترین دورہ ہے۔ اللہ پاکستان کو سرخرو اور کامیاب کرے۔ آمین (جاری ہے)

 
 

 

اپنا تبصرہ بھیجیں