پرندے کا سر الگ ہوجانے پر شکار کا حکم

 قبروں پر پتھر کتبہ

سوال:1۔غلیل سے کسی بھی پرندہ کو شکار کرنے سے  اگر سر بالکل الگ ہو جائے تو  اس پرندے کا کیا حکم ہوگا؟

2۔۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قبروں کے اوپر دو پتھر گاڑ دیتے ہیں ان کی شرعی حیثیت کیا ہے آیا ایک پتھر لگانا سنت ہے یا دو؟

                                                      ﷽

الجواب حامدا ومصلیا

1۔مذکورہ صورت میں غلیل سے سر الگ ہونے کے  بعد  اگر تھوڑی سی بھی جان باقی ہے   اور گردن کا  اتنا حصہ باقی ہے جس میں رگیں ہوتی ہیں اور اسے     اللہ کا نام لے کر ذبح کر دیا جائے تو  اس کو کھانا جائز ہوگا  ،اور اگر  سر الگ ہونے کے فورا  بعد ذبح سے پہلے ہی مر گیا     یا گردن کا وہ   حصہ باقی نہ رہا جس میں رگیں ہوتی ہیں  یا بالکل بے جان ہونے کے بعد ذبح کیا تو اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا۔

الفتاوى الهندية (5/ 291)

“ولو انتزع الذئب رأس الشاة وهي حية تحل بالذبح بين اللبة واللحيين”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 308)

“والتي فقر الذئب بطنها فذكاة هذه الأشياء تحلل، وإن كانت حياتها خفيفة وعليه الفتوى، – {إلا ما ذكيتم} (قوله وإن كانت حياتها خفيفة)۔۔۔ وفيها: شاة قطع الذئب أوداجها وهي حية لا تذكى لفوات محل الذبح، ولو انتزع رأسها وهي حية تحل بالذبح بين اللبة واللحيين”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 471)

“قال قاضي خان: لا يحل صيد البندقة والحجر والمعراض والعصا وما أشبه ذلك وإن جرح”

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 236)

“(ويسوى اللبن والقصب لا الآجر) المطبوخ والخشب لو حوله، أما فوقه فلا يكره ابن مالك.

[فائدة] عدد لبنات لحد النبي – عليه الصلاة والسلام – تسع بهنسي (وجاز) ذلك حوله (بأرض رخوة) كالتابوت (ويسجى) أي يغطى (قبرها) ولو خنثى (لا قبره) إلا لعذر كمطر (ويهال التراب عليه، وتكره الزيادة عليه) من التراب لأنه بمنزلة البناء۔۔۔(قوله لأنه بمنزلة البناء) كذا في البدائع. وظاهره أن الكراهة تحريمية، وهو مقتضى النهي المذكور، لكن نظر صاحب الحلية في هذا التعليل وقال: وروي عن محمد أنه لا بأس بذلك، ويؤيده ما روى الشافعي وغيره عن جعفر بن محمد عن أبيه «أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – رش على قبر ابنه إبراهيم ووضع عليه حصباء» وهو مرسل صحيح، فتحمل الكراهة على الزيادة الفاحشة، وعدمها على القليلة المبلغة له مقدار شبر أو ما فوقه قليلا”

 

فتاوی محمودیہ 17/285

“اگر رگہائے مذکورہ بالا باقی تھیں یعنی گردن کا اتنا حصہ باقی تھا جس میں یہ رگیں ہوتی ہیں اورپھر ذبح کردیا گیا تو درست ہوگیا اگرچہ سر باقی نہیں رہا تھا،اگر یہ رگیں باقی نہیں رہی تھیں یعنی گردن کا اتنا حصہ بھی نہیں رہا تھا جس میں یہ رگیں ہوتی ہیں تو ذبح درست نہیں ہوا”

 

فتاوی مفتی محمود 11/397

“صورت مسئولہ میں چونکہ  محل ذبح  یعنی مابین الحلق واللبۃ موجود ہے  اور جانور میں حیات بھی باقی ہے  اگر چہ قلیلہ ہے  لہذا امام صاحب کے قول پر یہ جانور بعد از ذبح حلال ہے وعلیہ الفتوی”

2۔۔۔واضح رہے کہ قبر کی حفاظت اور نشاندہی  کے لیے  پتھر پر نام لکھ کر قبر کے سرہانے گاڑھ دینا  جائز ہے لیکن  اس کی کوئی مخصوص تعداد   ثابت نہیں  لہذا  جتنے پتھروں سے ضرورت پوری ہو سکے اس سے زائد نہ رکھے جائیں ۔

فتاوی دار العلوم دیوبند جلد 5صفحہ نمبر: 257

“قبر پر بعوض تختوں کے پتھر جائز ہے یا نہیں ؟ (الجواب )بہ ضرورت جائز ہے”

فتاوی ریاض العلوم جلد 3 صفحہ نمبر: 192

“علامہ شامی نے حدیث عثمان بن مظعون سے جواز پر استدلال کیا ہے کہ علامت لگانے کا ثبوت ہے تاکہ قبر پہنچانی جاسکے اور کتابت بھی اس کا ایک طریق ہے اور حدیث نہی کو عدم حاجت پر محمول کیا ہے   یہی وجہ ہے کہ کتابت قرآن و اسماء الٰہیہ اور کلمات مدح وغیرہ کے لکھانے کی کوئی ضرورت چونکہ نہیں ہوتی لہذا وہ اصل کراہت پر باقی ہیں   کتبہ کو بوقت ضرورت جائز لکھا ہے اور ضرورت کا حاصل ہے دفع ضرر”

اپنا تبصرہ بھیجیں