پیٹرول کی مدمیں بغیر اطلاع کےکمیشن رکھنا

سوال: کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مجھے کہتا ہے کہ فلاں جگہ سے چیز لادو یا بازار سے فلاں چیز لے آؤ اب بازار جانے کا خرچہ بھی ہوتا ہے پٹرول کا بھی اور وقت بھی صرف ہوتا ہے، کیا  اس میں ہم  بغیر بتائےکمیشن لے سکتے ہیں  یا پٹرول کا بغیر بتائے خرچہ لے سکتے ہیں؟

سائل : سعد جاوید

الجواب حامدا ومصلیا

مذکورہ صورت میں سائل وکیل بن کرسامان  لاکر دے رہا   ہے۔ اس صورت میں کمیشن  یا پٹرول کی مد میں رقم  وصول کرنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ اپنی اجرت مقرر کرلے۔ مثلاً:یوں کہے کہ جتنے کی چیزہوگی اس پر100 روپے اجرت رکھوں گا،یا یوں وضاحت کرے کہ میں آپ کو مارکیٹ سے یہ چیز 150 میں لاکردے دوں گا  یاپٹرول کے بقدر رقم الگ سے لوں گا۔اجرت مقرر نہ کرنے کے باجود بازار سےسامان لاکر دینے والاتبرع اوراحسان کررہا ہے ۔

مذکورہ طریقے سے  طے کیے بغیر کمیشن کے طور پر رقم رکھنا جائز نہیں ۔البتہ چند صورتوں میں بچ جانے والی رقم  بطور کمیشن کے سائل کے لیے رکھنے کی گنجائش ہے۔

1۔۔۔سائل جس چیز کا کاروبار کرتا ہو اور اس سے وہی چیز منگوائی جائے تو وہ کمیشن رکھ سکتا ہے ،مثلاً اس کی موبائل کی دکان ہے اور   اس کو اپنی  دکان سے موبائل خریدنے  کا کہا جائے ۔

            2 ۔۔۔یہ بات معروف ہو کہ سائل کام کے عوض اپنی اجرت کمیشن کی مد میں رکھتا ہے تو بغیر طے کیے  بغیر بھی  سائل کمیشن رکھ سکتا ہے۔

3 ۔۔۔اس  علاقے یا متعلقہ ادارے  کا عرف ہو کہ  اضافی کام کرنے کے عوض اجرت ؛کمیشن دیا جاتا ہو

مذکورہ صورتوں میں سے کوئی بھی صورت نہ ہو تو سائل  طے کیے بغیر کمیشن  نہیں رکھ سکتا۔

الحجة علی ما قلنا

  • ما فی مشكاة المصابيح ، باب الغصب والعاریة ، الفصل الثانی ۱/۲۶۱ مكتبه رحمانیه

وَعَن أبي حرَّة الرقاشِي عَن عَمه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «أَلا تَظْلِمُوا أَلَا لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ»

  • ما فی رد المحتار باب الإجارة الفاسدة ۶؍۴۷ ایچ ایم سعید

قال في رد المحتار نقلا عن البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل

  • ما فی المجلة الاحکام العدلیة:الكتاب الحادی عشر فی الوکالة، الباب الثالث، الفصل الاول، مادة ۱۴۶۷

اذا اشترطت الاجرة فی الوکالة واوفاها الوكیل فیستحقها، وان لم تشترط ولم یکن الوكیل ممن یخدم بالاجرة فیکون متبرعا ولیس له مطالبة الاجرة۔

  • ما فی درر الحكام فی شرح مجلة الاحکام تحت شرح المادة ۱۴۶۷۔۔۔۳/۵۷۳ دار الجيل

إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل انظر المادة۔۔۔ لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة

  • وفی شرح المجلة ل محمد خالد الاتاسی،تحت شرح المادة ۱۴۶۷ :۴/۴۱۵ دار الکتب العلمیة بیروت

وانما یجب للوكیل اجر علی عمله ان شرط له ذلک صریحا او بدلالة العرف والعادة بان کان الوكیل ممن جرت عادته ان یعمل باجرة کالدلال والسمسار وكتجار زماننا فان العرف والعادة قد جرت بان احدهم یعمل لغیره باجرة یسمونها معلوما وکوکلا الدعاوی فانهم كذالك فان مثل هذا یستحق اجرة مثل عمله علی ما بینا  وان لم یشترط له ذلک صریحا لان المعروف کالمشروط

  • امداد الاحکام میں ہے : ۳/۱۳۹

اگر رستم جی کا عام طور پر کام کرنا معروف نہیں نہ اس کا دلال ہونا معروف ہے۔ تو اس صورت میں جبکہ کمیشن پہلے کچھ طے نہیں ہوا تھا، رستم جی کمیشن کا مستحق نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

محمد عثمان غفرلہ ولوالدیہ

نور محمد ریسرچ سینٹر

دھوراجی کراچی

۱۳/۱/۱۴۴۱ھ

2020/01/09

اپنا تبصرہ بھیجیں