نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم، امّابعد!
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآوؤھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلیٰ مَاھَدٰکُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ (سورۃ الحج، آیت نمبر ۳۷)
اصل چیز تقویٰ ہے:
قربانی ایک ایسا عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہر شریعت میں اور ہرنبی کی امت میں ضروری قرار دیا ہے ۔حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹو ں کی قربانی کا تذکرہ قرآن پاک میں صراحت سے موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے ہابیل کی قربانی کو قبول فرمایا اور دوسرے بیٹے قابیل کی قربانی کو قبول نہیں فرمایا۔قابیل کو اس پر حسد ہوا تو ہابیل نے اس کو جواب دیا قرآن شریف کی سورۂ مائدہ آیت نمبر ۲۷میں ہے :’’(اس میں میرا کوئی قصور نہیں، قبولیت کا مدار تو تقویٰ ہے)اللہ تعالیٰ متقیوں کا ہی عمل قبول کرتے ہیں۔‘‘قربانی دیتے وقت اگر دل میں تقویٰ اور اللہ کی رضا مقصد ہوتو اللہ قربانی قبول فرماتے ہیں ورنہ قبول نہیں فرماتے۔
معلوم ہوا کہ قربانی میں اصل چیز تقویٰ ہے ۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ہے:’’اللہ کے پاس نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔‘‘
(الحج : ۳۷)
قربانی رضائے الٰہی کے لیے ہو:
علماء کرام نے فرمایاہے کہ قیامت کے دن قربانی کے جانور پل صراط سے پار کرنے کے لیے ذریعے کے طور پر استعما ل ہوں گے۔ اہل اللہ نے یہ بات لکھی ہے کہ شریعت کی حیثیت قیامت کے دن پل صراط کی صورت اپنا لے گی جو جتنے تقویٰ والا ہوگا اور اللہ کی رضا کے لیے قربانی کرے گا اتنی جلدی وہ اس راستے کو طے کرے گاجو جہنم کے اوپر ہے ۔
آج لوگ بڑے بڑے جانور کی قربانی صرف اس نیت سے کرتے ہیں کہ نام روشن ہوجائے۔لوگ کہیں کہ فلاں نے اتنے لاکھ کے جانور کی قربانی کی ہے تو اگر قربانی میں ریا اور دکھلاوا مقصود ہوگا تو سارا عمل برباد ہوجائے گا،آخرت میں اس کا کوئی اجر نہیں ملے گا۔ اس لیے قربانی کا جانورلیتے وقت اور اس کو اللہ کی راہ میں ذبح کرتے وقت بار بار اس بات کو سوچا جائے کہ میں اس جانور کو اللہ کی رضا کے لیے ذبح کررہاہوں۔ جوجانور اللہ کی رضا کے لیے ذبح کیا جاتاہے اس کے خون کا قطرہ زمین پرگرنے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں قربانی قبول ہوجاتی ہے ۔
مسائل قربانی:
جانور کا حصہ لیتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کوئی بد عقیدہ اور حرام آمدنی والا آدمی اس میں شریک نہ ہو جائے کہیں اس کی وجہ سے سے سب کی قربانی ضائع نہ ہوجائے۔ کیونکہ قربانی میں تقسیم اور تجزی نہیں ہے ۔ جان ایک جانور کی نکلتی ہے ، ایک کی وجہ سے سب کی قربانی پر اثر پڑے گا اور کسی کی بھی قربانی قبول نہ ہوگی۔
قربانی کے جانور میں اس کا بھی خیال رکھا جائے کہ اس کو زیادہ تکلیف نہ دی جائے مثلاً گردن پوری کاٹ دینا، سینہ میں چھری مارنا، گردن کی ہڈی توڑدینا ۔ یہ سب چیزیں جانور کو بلاوجہ تکلیف دینا ہے ۔ اللہ کے نبی w نے جانور کی راحت کا اتنا لحاظ کیا ہے کہ ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح کرنے سے منع کیا ہے ۔جانور کے سامنے چھری تیز کرنے سے منع کیا ہے تاکہ جانور کو خوف اور وحشت نہ ہو۔
تقویٰ اصل مطلوب ہے:
قربانی میں مستحب یہ ہے کہ جانور کو کچھ دن رکھ کر مانو س کیا جائے کیونکہ دنیا کا قانون ہے کہ جس سے جتنی محبت ہو اس کوچھوٹنے سے اتنی ہی دل پر چوٹ پڑتی اور تکلیف ہوتی ہے ۔ اس لیے جب جانور کو مانوس کر کے ذبح کریں گے تو اس سے یہ جذبہ پیدا ہوگا کہ آج یہ محبوب چیز قربانی کی ہے کل اس سے زیادہ محبوب چیز انسان کی اپنی جان کی قربانی کی ضرورت پڑی تو اس کوبھی اللہ کی راہ میں قربانی کرنے سے دریغ نہیں کریں گے ۔ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ قربانی کے جانور کو سال بھر پالتے ہیں جب قربانی کا جانور ذبح ہوتا ہے تو ان کو سامنے کھڑا ہونا بھی مشکل ہوتاہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ لیکن وہ اللہ کا حکم سمجھ کر جانور کی گردن پر چھری پھیرتے ہیں۔ اس سے دل میں جواللہ کا خوف اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے یہ ہی اصل مطلوب ہے۔
اللہ ہمیں تقویٰ کی دولت عطا فرمائے! اپنی محبوب سے محبوب چیز اپنی راہ میں قربان کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری قربانیوں کو اپنی راہ میں قبول فرماکر اور قیامت کے دن جہنم سے خلاصی کا ذریعہ بنا کر ہمیں جنت میں داخل فرمائے۔
آمین!