قے آنے سے وضو کے ٹوٹنے کا حکم

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۴۵﴾

سوال:-        حضرت اقدس مفتی صاحب دامت بركاتہم۔کیا فرماتے ہیں علماءدین اس مسئلے کے بارے میں کیا قے آنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

بنت عبدالله :١٥ ربيع الاول ١٤٣٩

جواب :-       قے اگر منہ بھر کر ہو  تو  اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اگر اس سے  کم ہوتو وضو نہیں  توٹتا۔ تاہم اگر متلی  برقرار  رہے ختم نہ ہواور اس ایک متلی سے ہی تھوڑی تھوڑی کر کے اتنی قے  ہوجائے کہ  جس کو اگر جمع  کیا جائے تو اس  سے منہ بھر جائے  تو وہ بھی ناقض وضو ہے۔

         واضح رہے کہ  یہ حکم  کھانے پینے کی  چیزوں اور  جمے ہوئے خون وغیرہ کی قے کا ہے ۔بہتے  ہوئے خون کی قے اگر تھوڑی بھی ہو تو  اس سے وضو ٹوٹ جاتا اور خالص بلغم کی  قے اگر منہ بھر کر بھی ہو تو اس سےو ضو نہیں ٹوٹے گا۔

(حاشية ابن عابدين،ج: ا/ص ٢٩٣۔٢٨٩)

نقض الوضوء قىء ملأفاه بأن يضبط بتكلف من مرة اي صفراء او علق أي سوداء۔۔۔۔ وهو نجس مغلظ ولو من صبي ساعة ارتضاعه هو الصحيح لمخالطة النجاسة ذكره الحلبي.۔۔۔۔۔ لا ينقضه قيء من بلغم علي المعتمد(أصلا) الا المخلوط بطعام فيعتبر الغالب،ولو استويا فكل على حدة.وينقضه دم مائع من جوف أو فم( غلب على بزاق) حكما للغالب( أو ساواه) احتياطا.لا ينقضه المغلوب بالبزاق والقيح كالدم والاختلاط بالمخاط كالبزاق.۔۔۔۔ ويجمع متفرق القىء و يجعل كقيء واحد لاتحاد السبب وهو الغيثان عند محمد رحمه الله وهو الاصح، لان الاصل اضافة الاحكام الي اسبابها الا لمانع، كما بسط في الكافي.

فقط والله تعالیٰ اعلم

صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر

اپنا تبصرہ بھیجیں