قصہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام

نسب نامہ : يوشع بن نون بن أفراثيم بن يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ

اہل کتاب کاکہنا ہے کہ یوشع ؑ ہود ؑکے چچازاد  ہیں اورحضرت یوسف ؑکےپڑپوتے ہیں ۔

اہل کتاب کاان کے نبی ہونےپراتفاق ہے تورات میں یشوع کی کتاب بھی مستقل  صحیفہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔سامریوں کاایک گروہ موسیٰ ؑ کے بعد یوشع  بن نون ؑکونبی مانتا ہے۔ان کےعلاوہ کسی کی نبوت کےقائل  ہیں جبکہ ان کی کتاب  میں دوسرے انبیاء کی تصدیق موجود ہے۔  

محمد بن اسحاق ؒ  سےروایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آخری عمر میں نبوت حضرت یوشع بن نون ؑ کی طرف منتقل کردی گئی تھی ۔

قرآن میں تذکرہ  : ۔

قرآن پاک میں حضرت یو شعؑ کانام مذکورنہیں البتہ سورۃ الکہف میں دوجگہ حضرت موسیٰ ؑ کےنوجوان خادم کاتذکرہ موجود ہے۔حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے حضورﷺ نےفرمایا:  “وہ یوشع بن نون ہی ہیں ” (صحیح بخاری)

 فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا ﴿٦١﴾فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِن سَفَرِنَا هَـٰذَا نَصَبًا﴿٦٢﴾ 

اس آیت میں بتایاگیاہے کہ جب موسیٰ ؑ سے حضرت خضرؑکی ملاقات ہوئی ۔

نیابت موسیٰ ؑ :

 تورات میں ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی زندگی ہی میں ان پرظاہر کردیاگیاتھاکہ یوشع ؑ میراخاص بندہ ہے  بنی اسرائیل کےنواجون اسی کی سرگردی میں کنعان اوربیت المقدس فتح کریں گے ۔

چنانچہ  بنی اسرائیل 40 سال تک وادی تہہ میں سرگرداں رہے یہاں تک کہ حضرت ہارون ؑ اورپھر حضرت موسیٰ ؑ کی وفات کےبعد بنی اسرائیل کی باگ دوڑ حضرت یوشع بن نون ؑ نےتھام لی ۔بنی اسرائیل کووادی تہہ میں سزااسی بناء پرملی تھی کہ وہ یہاں کے جنگجولوگوں سے ڈر کربیت المقدس میں داخل نہ ہوئے  اوراحکام الٰہی  کاانکار کیا وادی تہہ کی مشکل گزار زندگی  میں 40سال کی وعظ ونصیحت  کے بعدجونسل پروان چڑھی اس نے حضرت یوشع  بن نون ؑ کی سرپرستی  میں جہاد کیا۔

فتوحات کی ابتداء :۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی زندگی  ہی میں ارض مقدس میں جابر طاقتوں سے مقابلہ کےلیے حضرت یوشع ؑ کوامیر مقرر کردیاپھر آپ ؑ نے اپنی قوم کوبارہ قبائل میں تقسیم کیااوران کے سپہ سالارنامزد کردیے تاکہ وادی تہہ سےنکلتےہی جباربن قوم سےبرسرپیکار ہوجائیں ۔

چالیس سال بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع ؑکوحکم دیاکہ بنی اسرائیل کوعمالقہ اوردوسری جابرقوموں سےجنگ کےلیےنکلو،میری مددتمہارے ساتھ ہے تورات میں ہے :

“اورخداکےبندے موسیٰ کی وفات  کےبعدایسا ہواکہ خداوندنے اس کےخادم نون کےبیٹے یوشعسے کہا۔میرابندہ موسیٰ مرگیا ہے سواب تواٹھ  اوران سب لوگوں کوساتھ لے کر اس ہردن  کے پاراس ملک جا،جیسے میں ان کویعنی بنی اسرائیل کودیتاہوں ” ( یشوع کی کتاب باب 5۔1)

حضرت یوشع ؑ نےقوم کوخداکاپیغام سنایا اورکنعان کے سب سے بڑے شہر اریحا پہنچے یہ بہت بڑاقلعہ تھا۔ 6 ماہ تک اس قلعے کامحاصرہ کیا،قلعہ کوگھیرکر بارودپھینکا اورتکبرکہتے ہوئے قلعہ کی دیواریں گرادیں ۔بھرپور قوت کے ساتھ لڑتے ہوئے قلعہ کے اندر داخل ہوئے  اور مال غنیمت قبضے میں لے لیا بارہ ہزار مردعورتوں کوتہہ تیغ کیا، کہاجاتاہے حضرت یوشع بن نون  ؑ نے ملک شام کے اکتیس بادشاہوں پرغلبہ پایا۔ان کاآخری معرکہ  جمعہ کے دن  ہوایہ لوگ ہفتے کولڑائی نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ ان کی عبادت کادن تھا

 عبادت  کےعلاوہ ہرکام حرام تھا۔

سورج کارک جانا:

عصر کےوقت  یہ معرکہ ہوابنی اسرائیل بڑی حد تک کامیابی  حاصل کرچکےتھے کہ سورج کےغروب ہونے کاوقت قریب تھا صورت حال نازک تھی اگرسورج  غروب ہوجاتا تولڑائی بندکرنے  پرمجبورتھے اس طرح  ان کی فتح درمیان میں رہ جاتی اس موقع پرحضرت یوشع بن نونؑ نے سورج  کی طرف دیکھ کر کہا:

“توبھی معمورہے  اورمیں بھی معمورہوں ۔اے اللہ توایسے مجھ پر سے روک تھے “َ

اللہ تعالیٰ نے سورج کوروک دیا حتی کہ انہیں اریحا پر فتح  نصیب ہوگئی ۔اورچاند  کوحکم ہواکہ وہ بھی  طلوع ہونے سے رک جائے۔چاند کے طلوع نہ ہونے کامقصد اہل کتاب کی روایاتسے ملتاہے جبکہ ہماری کتابوں میں صرف سورج کے رک جانے کاقصہ ہے۔یہ واقعہ  بیت المقدس کی فتح کے دن پیش آیااور اریحا کی فتح بیت المقدس کی فتح کاہی سبب بنی۔

مسنداحمدمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اکرم ﷺنےفرمایا:

“سورج کسی انسان  کےلیے نہیں روکاگیا سوائے یوشع ؑ کے لیے چندراتوں میں جب وہ بیت المقدس کی طرف کوچ فرمارہےتھے”۔

تابوت سکینہ کاان کےساتھ ہونا:

تورات میں ہے کہ جب بنی اسرائیل  جنگ کےلیے تیارہوئے توخداکےحکم سےتابوت سکینہ ان کے ساتھ تھا۔اس میں عصاء موسیٰ ؑ پیرہن ہارون ؑ اورمن کامرتبان  اس کےعلاوہ دوسرے تبرکات  بھی تھے ۔

بنی اسرائیل کی تکبرانہ خصلت : حضرت یوشع ؑ کی قیادت میں جب بنی اسرائیل  اُرَیْحاکوفتح کرکے کنعان پھر فلسطین  اوربیت المقدس میں فتح کے جھنڈے گاڑڈیے اوربیت المقدس میں ان کافاتحانہ داکلہ ہونے لگا تواللہ نے حکم دیاکہ عاجزی کے ساتھ سجدہ کرتے ہوئےداخل ہونا اورزبان سے کہنا۔” حطۃ ” ( یعنی یااللہ ہم سے پہلے گناہ درگزرفرما)

مگربنی اسرائیل  کے قول وعمل بدل ڈالا وہ اپنی سرینوں کےبل اکڑتے ہوئے داخل ہوئے اوریوں کہتے داخل ہوئے 

حبۃ فی شعرۃ،حنطۃ فی شعرۃ ( یعنی دانہ بالی میں،گندم بالی میں  )

انہوں نے حکم الٰہی کی مخالفت  کی اورمذاق اڑایا

  فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَظْلِمُونَ ﴿١٦٢﴾الاعراف

اسی طرح آیات الٰہی میں تحریف  کادروازہ کھلا اوریہ لوگ تورات اورکلام الٰہی میں تبدیلی کرنے لگے یقیناً ان پرعذاب نازل ہوا ۔

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ﴿٥٩

عذاب الٰہی  : اللہ نے بنی اسرائیل پر طاعون کی بیماری بھیجی ۔ صحیح مسلم میں نبی کریم ﷺ کاارشاد گرامی ہے :

“طاعون ایک عذاب ہے  جوبنی اسرائیل پر یاتم سے پہلے کی امت پر بھیجاگیاجس کی وجہ سے ایک ہی دن میں 20 ہزافرادلقمہ اجل بن گئے “۔

بیت المقدس کی فتح اوربعد کےحالات:

جب بیت المقدس پر قبضہ مستحکم ہوگیاتووہ اسی میں بسے رہے ،ان کےدرمیان پیغمبرحضرت یوشع ؑ کتاب تورات کے مطابق فیصلے فرماتے رہے ۔حتیٰ کہ حضرت یوشع  علیہ السلام وفات پاگئے ۔

توریت کے مطابق 27 سال حضرت یوشع ؑ نے باقاعدہ حکومت کی حضرت یوشعؑ کے بعددین وسلطنت الگ الگ ہوگئے۔دین حضرت یعقوب ؑ کے بیٹے “لاوا”کی نسل میں تھاجوایک مذہبی گروہ تھا۔ جبکہ اقتداء وحکومت ” یہودا”کی اولاد میں تھی جویہودی کہلائیں۔ آپؑ کے بعد کالب بن یوقنا جوحضرت موسیٰ ؑکے قریبی ساتھی تھے جانشین کاحق اداکیا۔کالب بن یوقنا حضرت موسیٰ کی ہمشیرہ مریم بن عمران کے شوہرتھے ۔حضرت یوشع بن نونؑ کاانتقال127 سال کی عمرمیں ہوا۔مصرکےشہر کنعان میں آپ ؑ کاانتقال ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں