قرآن میں مذکورماورائی ہستیاں

فرشتے : قرآن مجیدکامطالعہ کریں توپہلے پارہ سے لےکرآخری پارےتک فرشتوں کاتذکرہ ملتاہے۔ فرشتے کیاہیں ؟ کس چیزسےپیداکیےگیےہیں ؟ ان کی تخلیق کاکیامقصدہے؟ اورانسان سے ان کے تعلق کی بنیادیں کیاہیں؟ یہ سب باتیں جاننے کی کوشش کرتےہیں ۔ 

بحیثیت مسلمان فرشتوں پرایمان لانااوران کی موجودگی کوتسلیم کرناضروری ہے ۔جس حیثیت سےقرآن مجید نے ابھی پیش کیا۔کیونکہ مشرکین مکہ بھی فرشتوں کے وجود کوتسلیم کرتے تھےمگروہ انہیں اللہ کی بیٹیاں تصورکرتےتھے مگروہ انہیں اللہ کی بیٹیاں تصورکرتےتھے ۔ جب کہ قرآن مجیدنے ان کےاس تصورکی نفی کی ہے ۔

فرشتوں کےوجودکوتسلیم کرنا”ایمان بالملائکہ ” کہلاتاہے ۔ 

قرآن کی سورۃ البقرہ میں ہے : 

لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴿١٧٧177﴾

ترجمہ: ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منہ کرنے ہی میں نہیں بلکہ حقیقتاً اچھاشخص وہ ہے جواللہ تعالیٰ پر،قیامت کے دن پر،فرشتوں پر،(اللہ کی ) کتاب پر اور( اس کے) نبیوں پرایمان رکھنےوالاہو”۔

اسی طرح سورۃ النساء میں ہے 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿١٣٦136﴾ 

ملائکہ کےمعنیٰ پیغام رساں اورقاصدکےہیں،یہ خالق اورمخلوق کےدرمیان قاصدہیں قرآن مجید نےمتعددمقامات پران کورسل اللہ کہاہے ۔ 

سورۃ الحج میں ہے :

اللَّـهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ ﴿75﴾

ترجمہ: خدافرشتوں میں سے اپنےپیغامبر منتخب کرتاہے ” 

فرشتے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اوراللہ کے بتائے ہوئے کاموں پر متعین ہیں ۔ 

سورۃ الانبیاء : وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۚ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ ﴿26٢٦﴾ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ﴿2727٢٧﴾

یعنی وہ سب اس کے باعزت بندےہیں ۔کس بات میں اللہ پرتکرارنہیں کرتے بلکہ اس کےفرمان پرکاربندہیں ۔

اس کی نافرمانی نہیں کرتے،نہ عبارت سے سرکشی کرتےہیں اورنہ تھکتےہیں ،دن رات اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اورذرابھی سستی نہ کرتے ۔

فرشتوں کی تخلیق کب ہوئی ؟

قرآن کریم کےمطالعہ یہ معلوم ہوتاہے کہ فرشتوں کی تخلیق انسان سے پہلے ہوئی البتہ کس قدرپہلےپیداہوئےاس کاتعین کس کتاب میں موجودنہیں ۔ 

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٣٠﴾

حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد فرشتوں کوحکم ہواکہ وہ آدم علیہ السلام کوسجدہ کریں ۔

فرشتوں کی تخلیق کس چیز سے ہوئی ؟

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: فرشتوں کونورسےپیداکیاگیا۔جنات کوآگ اورآدم کواس چیز سےجواللہ تعالیٰ نے تمہیں بتایاہے یعنی مٹی سے ” ( صحیح مسلم 2996) 

فرشتوں کی قدوقامت اورجسمانی شکل وصور ت :

قرآن وحدیث سےمعلوم ہوتاہے کہ فرشتوں میں بھی بعض چھوٹے ہیں اوربعض بڑے ، کچھ کےدو، کچھ کے تین اورکچھ ایسے بھی ہیں جن کےچھ چھ سوبازوہیں ۔ 

الْحَمْدُ لِلَّـهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۚ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١﴾

سورۃ فاطر1) 

رسول اللہ ﷺنے فرشتوں کی عظیم جسمانی ہئیت وقدقامت کوبیان فرمایاہے۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے جبریل علیہ السلام کوجب ان کی اصل شکل میں دیکھاتوان کے چھ سوپرتھے ہرپرنےافق کوگھیررکھاتھا۔ان کے پروں سےمختلف رنگ اورہیرے وموتی بکھیررہےتھے ۔ ( مسنداحمد 2282، تفسیرابن کثیر 7724) 

وہ فرشتے جنہوں نے عرش کواٹھایاہواہے: 

جابررضی اللہ عنہ سےمروی حدیث میں رسول اللہ ﷺنےفرمایا: 

مجھےا جازت ملی ہے کہ میں عرش کےاٹھانے والےفرشتوں میں سے ایک فرشتے کاحال بیان کروں ۔جوعرش کواٹھائے ہوئ ہیں ۔اس کےکان کی لوسے اس کےمونڈے تک کافاصلہ سات سوبرس کی مسافت کےبرابرہے ۔”

( سنن ابی داؤد 4727)

سب سے عظیم اوربڑی مخلوق رحمٰن کاعرش ہے،اللہ تعالیٰ نے عظمت کوعرش کی صفت قراردیاہے۔ربا لعرش العظیم ‘اللہ تعالیٰ نے عرش کامقام ومرتبہ بڑھانے کےلیے اسے اپنی نسبت بھی عطافرمائی : ذوالعرش المجید ( البروج :15) 

عرش کواٹھانے کےلیے اللہ تعالیٰ نے چاربڑے بڑے فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے ،یہ فرشتے ہروقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح ثنا اورمومنوں کےلیے استغفارکرتے رہتے ہیں ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے : الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ﴿7٧﴾

آخرت کے دن عرش کوآٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہو ں گے اوراللہ تعالیٰ مخلوقات کےدرمیان فیصلے کےلیے آئےگا۔

فرشتوں کےاعضاء جسمانی :

مختلف آیتوں اورحدیثوں سےفرشتوں کے بعض عضوجسمانی کاپتہ چلتاہے ۔

فرشتوں کے ہاتھ : وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ وَمَن قَالَ سَأُنزِلُ مِثْلَ مَا أَنزَلَ اللَّـهُ ۗ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّـهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ﴿٩٣93﴾

ترجمہ:اگرآپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گےا ورفرشتے اپنے ہاتھ بڑھارہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو۔”

فرشتوں کی ہتھیلیاں :

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم نے عرض کیا:رسول اللہ ﷺ! جب ہم آپ کودیکھتےہیں توہمارے دلوں میں نرمی پیداہوجاتی ہےاورہمیں آخرت کی یادآتی ہے لیکن جب واپس لوٹتے ہیں تودنیا میں مگن ہوجاتے ہیں ۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا: “اگرتم لوگ ہروقت ویسے ہی ہوجاؤ جیسے کہ میرے پاس موجودگی کے وقت ہوتے ہوتوفرشتے اپنی ہتھیلیوں سے تم سےمصافحہ کریں اورتم سے ملنےتمہارے گھروں میں پہنچنے لگیں۔” ( مسنداحمد 8043، الصحیحہ 2756 ) 

فرشتوں کے کان اورکندھے بھی ہیں :

رسول اکرم ﷺنے فرمایا : 

“مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کےاٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کاحال بیان کروں جوعرش کواٹھائے ہوئے ہیں ،اس کے کان کی لوسے مونڈھے تک کافاصلہ سات سوبرس کی مسافت کےبرابرہے ( سنن ابوداؤد 4727) 

فرشتو ں کی آنکھیں : 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے رسول اکرم ﷺنےفرمایا : “صاحب صور ( اسرافیل علیہ السلام ) جب سے اس کام پر متعین ہوئے ہیں ان کی نظریں عرش پر ٹکی ہوئی ہیں کہ کہیں ایسانہ ہوکہ ان کی نگاہ کہیں اورہواورانہیں صورمیں پھونکنے کاحکم دیاجائے گا گویا کہ ان کی دونوں کی آنکھیں چمکتے ستارے ہوں ” ( مستدرک حاکم 4306) 

بعض فرشتے خوبصورت ہیں اورٖڈراؤنے اورہیبت ناک : 

عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ﴿٥5﴾ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ ﴿6٦﴾

فرشتوں کواللہ تعالیٰ نے مجموعی طورپر خوبصورت اوروجیہ پیداکیاہے ۔ 

“ذومرۃ “سے مرادوجیہ وخوبصورت ہے ۔اسی طرح “ذومرۃ” کامطلب قوی وطاقتور بھی ہے۔یعنی فرشتے طاقتور بھی ہیں اورحسین وجمیل بھی ۔

نیک انسان کی روح قبض کرنے والے فرشتوں کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نےفرمایا: نیک انسان کے پاس ایسےفرشتے آتےہیں جن کے چہرے سورج کی مانندروشن ہوتےہیں ۔ ( مسنداحمد4782) 

بعض فرشتے انتہائی ڈراؤنے اورہیبت ناک ہیں ۔چنانچہ منکرنکیر کے بارے میں حدیثوں میں واردہے کہ وہ سیاہ رنگ ہیں اوران کی آنکھیں نیلی ہیں ۔ ( سنن ترمذی 1071)

انہی فرشتوں کے بارے میں عمررضی اللہ عنہ سےمصنف عبدالرزاق 6738 میں ہے کہ ان کی آنکھیں تانبے کی دیگچیوں کےبرابرہیں ،دانت گائے کے سینگ کی طرح اورآوازبجلی کی کڑکی کی طرح (گرج دار)ہے ۔

فرشتوں کی تعداد: قرآن وحدیث سے پتہ چلتا ہے کہ فرشتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جس کاعلم صرف اورصرف اللہ کو ہے۔ 

ارشاد ربانی ہے : وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ

ترجمہ: تیرے رب کے لشکروں کواس کے سواکوئی نہیں جانتا،”

فرشتوں کی کثرت کااندازہ اس حدیث سے لگایاجاسکتاہے جس میں اللہ کے نبی ﷺ نے ساتویں آسمان پرموجود بیت المعمور کے بارے میں بیان کیاہے کہ ا س میں سترہزار فرشتے روزانہ نمازپڑھتے ہیں اورایک مرتبہ جوفرشتہ نمازپڑھ کراس سے نکل جاتاہے توپھرکبھی داخل نہیں ہوپائےگا۔ ( صحیح بخاری 3207،صحیح مسلم 162) 

ابوذررضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنےفرمایا : “آسمان چرچرارہاہے اوراسے چرچرانے کاحق بھی ہے ،اس وجہپ سے کہ آسمان میں کہیں چار انگلی بھرکرایسی جگہ نہیں ہے مگراس پرکوئی نہ کوئی فرشتہ اپنبی پیشانی رکھے ہوئے موجودہے۔” ( سنن ترمذی 2312،سنن ابن ماجہ 4190) 

فرشتوں کی رفتار: دنیامیں سب سے تیزرفتارروشنی تسلیم کی جاتی ہے جوکہ ایک سیکنڈمیں 186میل کی رفتارسے چلتی ہے ،لیکن فرشتوں کی رفتار اس سےکہیں زیادہ ہے جودنیامیں کسی بھی آلے سے ناپانہیں جاسکتا۔ جس کااندازہ اس امرسے لگایاجاسکتاہے کہ رسول اکرم ﷺ سےلوگ مسائل دریافت کرنے تشریف لایاکرتے ، وہ اپنے سوالات سے فارغ نہیں ہوتے کہ جبرئیل علیہ السلام رب باری تعالیٰ کے پاس سے جواب لےکر حاضر ہوجاتے ۔

فرشتوں کامقصدپیدائش : 

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کواپنی عبادت اوراطاعت وفرمانبرداری کےلیےپیداکیاہے،فرشتے پر آن اللہ وحدہ لاشریک لہ کی تسبیح وتحمیداورتقدس وکبریائی میں مصروف رہتے ہیں جوحکم ملتاہے اس کی فوراًتعمیل کرتےہیں ،فرشتوں میں اللہ تعالیٰ نے گناہ ، نافرمانی ، حکم عدولی ،سستی کاہلی اورلاپروائی وغیرہ جیسے منفی خصائل پیداہی نہیں کیے اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ملنےوالی ذمہ داری میں کوئی غفلت نہیں برتتے۔

فرشتوں کی ذمہ داریاں اوراختیارات :

اللہ تعالیٰ نےبعض فرشتوں کوبارش برسانے،بعض کوروح نکالنے بعض کوروح ڈالنے بعض کوآسمانوں اوربعض کوزمین پر ہونے والےامورطےکرنے اوربعض کوکائنات میں ہونے والی دیگرتبدیلیوں میں عمل دخل پرمامورکررکھاہے فرشتے یہ تمام کام اللہ تعالیٰ کےحکم سےبجالاتے ہیں۔انبیاء کرام کی تمام سیرتیں فرشتوں کی آمد،ان کی بشارت اورنفرت سےمعمورہیں ۔تورات اورانجیل قرآن ہرکتاب الٰہی ان کےکارناموں کی شاہدہے ۔حضرت آدم علیہ السلام کی بارگاہ میں انہوں نے سجدہ کیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کےمہمان خانہ میں یہ بھیجےگئے ، حضرت لوط علیہ السلام کی حفاظت اوران کی قوم کی بربادی پر یہ مامورہوئے ۔

حضرت ہاجرہ علیہ السلام کوبیابان میں یہ نظرآئے ،حضرت یعقوب علیہ السلام کےخیمہ میں ان کادنگل ہوا۔حضرت زکریا علیہ السلام اورمریم علیہ السلام کوبشارت انہوں نے دی، آنحضرت ﷺ کی خدمت اقدس میں بھی یہ مختلف فرائض پرمامورہوئے ۔ 

مشہورفرشتےا وران کی ذمہ داریاں “

1۔ حضرت جبریل علیہ السلام :

حضرت جبریل علیہ السلام وحی کے حامل اورخداکےچارمقرب ترین فرشتوں میں ایک فرشتے کانام ہے۔آپ ؑفرشتوں کےسردارہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ جن فرشتوں نے جنگوں میں شرکت فرمائی ان کی قیادت حضرت جبریل علیہ السلام نے کی ۔ 

شب قدر کےموقع پرحضرت جبرئیل علیہ السلام کی معیت میں فرشتے زمین پراترتے ہیں،بعض روایات سے پتہ چلتاہے کہ ساری مخلوق میں سے حضرت جبرئیل آخر میں فوت ہوں گے ،ا ن کاوجودتمام فرشتوں سےبڑاہے اورآپ ؑکے چھ سوپرہیں۔ حضرت جبرئیل ؑ کوتمام فرشتوں پرفضیلت دی گئی ۔ 

إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّـهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ ﴿٤﴾ ( سورہ التحریم ) 

إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿١٩1919﴾ ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ ﴿٢220﴾ مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ ﴿21٢١﴾ ( التکویر) 

حضرت جبرئیل علیہ السلام کوبنیادیہ طورپر انبیاء علیہ السلام کے پاس اللہ تعالیٰ کاپیغام پہنچانے پرمامورکیاگیا۔آپ ؑ ہر نبی پر پیغام الٰہی لایاکرتے تھے۔

ایک روایت میں ہے کہ کچھ یہودی آپ ﷺ کے پاس آئے اورکہنے لگے ” ہرنبی کے پاس اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ وحی لے کرآتاہے ،آپ ﷺ کے پاس کون سافرشتہ آتاہے تاکہ ہم آپ ﷺ کی اتباع کرسکیں؟ 

آپ ﷺنےفرمایا : میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آتےہیں۔ 

انہوں نے کہا : یہ تووہی ہے جوجہاد وقتال کاحکم لاتاہے یہ توہمارادشمن ہے ! اگر آپ ﷺ میکائیلؑ کانام لیتے توہم آپ ﷺ کی ضروراتباع کرتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی : 

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّـهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ ﴿٩٧﴾سورۃ البقرۃ 

قرآن مجید میں حضرت جبریل علیہ السلام کو روح بھی کہاگیاہے : 

نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾ سورۃ الشعراء 

ایک جگہ آپ ﷺ نے جبریل ؑکی سب سے پہلی آمداس وقت ہوئی جب آپ ﷺ غارحرا میں معتکف تھے ۔آپ ﷺ عبادت میں مصروف تھے کہ ایک فرشتہ آپﷺکےسامنے آگیا اورکہا ” پڑھ” آپ ﷺ نےفرمایا : “میں پڑھانہیں ہوں ” 

آنحضرت ﷺ نےفرمایا: اس نے مجھ کوپکڑکرزورسے دبایاکہ وہ تھک گیا پھرچھوڑدیا اور کہا ” پڑھ ” 

میں نے وہی جواب دیا،ا س نے تیسری دفعہ دبایااورچھوڑدیا اورکہا: 

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ﴿٤﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ﴿٥﴾

سورہ علق کی ابتدائی آیات 

اس کےبعدحضرت جبریل علیہ السلام کی پے درپے آمدشروع ہوگی ۔

حضرت جبریل علیہ السلام اس وقت بھی آتے جب آپ ﷺ مجمع میں بیٹھے ہوتے لیکن جوکچھ آپ ﷺ دیکھتے اورسنتے اوروں کودکھائی اورسنائی نہ دیتا۔

تورات میں انبیاء بنی اسرائیل کے قصوں میں حضرت جبریل علیہ السلام کے بکثرت واقعات موجودہیں ۔

انجیل میں ہے کہ روح القدس کبوتر کی شکل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پراترے۔ 

صحابہ رضی اللہ عنہم میں دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ ایک صحابی بہت حسین تھے ۔ جبرئیل علیہ السلام اکثران کی صورت میں آیاکرتے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں ایک مرتبہ میں نے دیکھاکہ دحیہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کےسامنے بیٹھے آپ ﷺ سےباتیں کررہےہیں ، مجھے کچھ بھی شک نہ ہواکہ یہ دحیہ رضی اللہ عنہ نہیں ہیں ۔اتنےمیں آپ ﷺ کےخطبے کی آوازسنی۔آپ ﷺ فرمارہےتھے کہ ابھی میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے ۔

ام سلمہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں تب میں سمجھی دراصل وہ دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ جبرئیل امین تھے ۔

یہودیت اورعیسائیت میں ذکر: 

حضرت جبرئیل علیہ السلام یہودیت وعیسائیت کی تحریروں میں عام پائے جاتے ہیں ،یہودی دیومالائی داستانوں کےمطابق طوفان نوح کے وقت جس شخص نے حضرت نوح ؑ کوطوفان آنے کی اطلاع دی وہ جبرئیل ؑ تھے۔جس قوت نے یعقوب علیہ السلام سے کشتی لڑی وہ جبرئیل علیہ السلام تھے ، کتاب خروج میں موجود ہے :

“اورخداوندکافرشتہ ایک جھاڑی میں سے آگ کےشعلہ میں اس نے نگاہ کی اورکیادیکھتا ہے کہ ایک جھاڑی میں آگ لگی ہوئی ہے مگر وہ بھسم نہیں ہوئی ۔تب موسیٰ علیہ السلام نے کہامیں اب کتراکراس منظر کو دیکھوں کہ یہ جل کیوں نہیں جاتی۔ جب خداوندنے دیکھاکہ وہ کترارہاہے تواسے جھاڑی سے پکارا اورکہا اے موسیٰ ! اے موسیٰ ! اس نے کہامیں حاضر ہوں ۔ ( خروج 2۔5:3) 

یہودیت میں یہ ماناجاتاہے کہ جھاڑی سے جوآواز آئی وہ جبرئیل علیہ السلام کی تھی ۔ 

روایت میں ہے کہ شب معراج میں حضرت جبرئیل علیہ السلام براق لے کرآنحضرت ﷺ کے پاس آئےتھے اورمقام سدرۃ المنتہیٰ تک ہم رکاب تھے ۔

حضرت جبریل ؑکی حقیقی صورت :

آپ ﷺ نےدومرتبہ جبرئیل علیہ السلام کوحقیقی صورت میں دیکھا۔ 

1۔ ایک مرتبہ ” افق اعلیٰ “میں جب رسول اللہ ﷺ نے حقیقی صورت دیکھنے کی درخواست کی ،

2۔دوسری مرتبہ معراج میں سدرۃ المنتہیٰ کے نزدیک 

رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل کوآسمان وزمین کےدرمیان کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھااس کے بعد سورہ مدثر کی آیات آپ ﷺ پر نازل ہوئیں ۔

جبرئیل علیہ السلام کی حقیقی صورت کی توصیف بیان کرتے ہوئے بعض نے کہا: درومروارید سے آراستہ چھ سوپررکھتاہے اورعظمت کے لحاظسے عالم کے شرق وغرب کوپر کرتاہے ۔

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک اورپھر آنحضرت ﷺتک انبیاء کے معلم ومددگار رہے ہیں ۔

حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت کے ماجرے میں جبرئیلؑ کاواضح کردار رہاہے۔آپ ؑ نے ہی ولادت عیسیٰ ؑکی خوشخبری حضرت مریم ؑ کودی اورروح الہی کو حضرت مریم ؑ کے رحم میں پھونکا۔

حضرت جبرئیل علیہ السلام کی عمرکااندازہ : 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت محمدﷺ نے جبریل ؑ سے پوچھا:

“اے جبرئیل !ذرایہ توبتاؤ تمہاری عمرکتنی ہے؟ 

جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا: 

“یارسول اللہ ﷺ! مجھے اپنی عمرکاصحیح علم نہیں ہے ،لیکن اتنایاد ہے کہ ساری کائنات کے پیداہونے سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ کےحجابات عظمت میں سے چوتھے پردےمیں ایک ستارہ چمکتاتھا،اورمیں نے اپنی زندگی میں وہ ستارہ بہتر ہزار مرتبہ دیکھاہے ۔ 

محمدﷺ نے جبرئیل علیہ السلام سے کہا: 

” اے جبرئیل ؑ! مجھے اپنےاللہ کی عزت کی قسم ، وہ ستارہ میں ہی ہوں “۔

( کتاب :سیرت حلبیہ ، جلد1صفحہ 30) ویکی پیڈیا

2۔میکائیل علیہ السلام :

ان کے ذمہ پانی برسانے اورخداکی مخلوق کوروزی پہنچانے کاکام مقررہے ۔

3۔بایبل کےمطابق :

یہ وہ فرشتہ ہے جس کی خاص ذمہ داری ،یہودی قوم کی دیکھ بھال اورحمایت تھی ۔ ( دانی ایل 12:1) 

اس نے شیطان سے موسیٰ ؑکی لاش سے متعلق بحث وتکرارکی تھی۔ ( یہوداہ9) یہی وہ واحدفرشتہ ہے جوبیابان میں جوموسیٰ ؑسے یمکلام ہواتھا۔ ( اعمال 38/7) 

مکاشفہ کی کتاب میں ذکر ہے کہ میکائیل ؑ نے دوسرے فرشتوں کے ساتھ ابلیس اوراس کے فرشتوں سے جنگ لڑی۔ ( مکاشفہ 16:7) 

قرآن مجید میں میکائیل ؑ کاذکر آیاہے ۔یہودیوں نےقرآن کے ماننے سےاس لیے انکارظاہرکیاتھاکہ یہ جبرئیل ؑ کی وساطت سے نازل ہوتاہے، خدانےا س کےجواب میں کہا: 

مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّـهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ ﴿٩٨﴾

سورۃ البقرۃ 98) 

حضرت میکائیل ؑ بھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں کئی بار حاضر ہوئے معراج کےموقعپر جودوفرشتے آئے تھے وہ جبرئیل ؑاورمیکائیل ؑتھے۔اسی طرح غزوہ احدمیں دوفرشتے دشمنوں سے آپ ﷺ کی حفاظت کرتےتھے وہ بھی صحیح مسلم میں ہے جبرئیل اورمیکائیل ؑتھے۔بعض روایتوںمیں ہے کہ نبوت کے ابتدائی تین سالوں میں میکائیل ؑ ہی آپ ﷺ کےساتھ تھے۔

عزرائیل علیہ السلام :

حضرت عزرائیل علیہ السلام جنہیں روح قبض کرنےیعنی لوگوں کی جان نکالنے کی خدمت سپردکی گئی ہے ، بے شمار فرشتے ان کی ماتحتی میں کام کرتےہیں ۔ان کوفرشتہ اجل اورملک الموت بھی کہاجاتاہے ،ملک الموت کانام عزرائیل ؑ ، قرآن وحدیث میں کہیں استعمال نہیں ہوا تاہم بعض آثارمیں اس کانام عزرائیل بیان کیاگیاہے۔ 

قرآن مجیدمیں ذکرآتاہے : قُلْ يَتَوَفَّاكُم مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ﴿١١) السجدہ 11) 

حضرت عزرائیل علیہ السلام کی ماتحتی میں کام کرنے والے فرشتوں کاذکرملتاہے ۔ 

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖوَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ ﴿٦١﴾

پھریہ معاون فرشتے دوطرح کے ہوتےہیں ایک جواہل ایمان کی روح بڑے آرام سے نکالتےہیں اور ایک وہ جو کافروں کی روح بڑی سختی سے نکالتے ہیں۔ 

وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا ﴿١1﴾ وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا ﴿22٢﴾

4۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام 

یہ ایک عظیم المرتبت فرشتہ ہے،ان کی ذمہ داری کے بارے میں مشہورہے کہ قیامت برپاکرنے اورپھر تمام مردوں کوزندہ کرنےکےلیے انہیں ” صور” ( بگل نماآلہ ) دیاگیا ہے جسے وہ اپنےمنہ میں لیے حکم الٰہی کےمنتظر ہیں ۔ جب انہیں حکم ملے گا وہ اس میں پھونکیں گےا وراس سے خوفناک آوازپھیلے گی جسے سننے والا ہر ذی روح مرجائے گا۔ پھرتمام لوگوں کوزندہ کرنےکےلیے بھی وہی دوبارہ اللہ کےحکم سے صور پھونکیں گے ۔ صورپھونکنے کے بارے میں قرآن وسنت میں بے شمار دلائل موجودہیں ۔احادیث میں یہ وضاحت بھی ہےکہ ایک فرشتہ صورپھونکنے کی ذمہ داری اداکرے گا۔ مگریہ فرشتہ کون ہے ؟ بعض اہل علم بغیر کسی اختلاف کےا س فرشتے کانام اسرافیل ؑ بتاتے چلے آرہےہیں ۔

قرآن مجیدمیں سورۃ الزمرمیں ہے : وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّـهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ ﴿68٦٨﴾وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿69٦٩﴾ 

اور صور پھونک دیا جائے گا پس آسمانوں اور زمین والے سب بے ہوش ہوکر گر پڑیں گے مگر جسے اللہ چاہے، پھر دوباره صور پھونکا جائے گا پس وه ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے،

اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی، نامہٴ اعمال حاضر کیے جائیں گے نبیوں اور گواہوں کو ﻻیا جائے گا اور لوگوں کے درمیان حق حق فیصلے کر دیے جائیں گے، اور وه ظلم نہ کیے جائیں گے۔

حضرت ابوسعیدرضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنےفرمایا:

“میں کیسے بے پرواہ ہوسکتاہوں جب کہ صوروالے فرشتے نے “صور”اپنےمنہ میں لیاہواہےاوراپنی پیشانی کوجھکایا ہواہے اوروہ اپنے کان لگائے انتظار کررہاہے کہ کب اسے حکم ملے اوروہ اس میں پھونک دے ۔

روایات اورقرآنی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ قیامت قائم ہونے پر یہ فرشتے بھی موت سے دوچار ہوں گےاورسوائے رب تعالیٰ کے کوئی زندہ نہیں رہے گا۔ 

سورۃ الرحمٰن کل مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ﴿٢٦﴾ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ﴿٢٧﴾

ترجمہ: زمین پرجوہیں سب فناہونےوالےہیں ، صرف تیرے رب کی ذات جوعظمت اورعزت والی ہے وہی باقی رہ جائے گی “۔

سورۃ آل عمران میں ہے 

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ﴿١٨٥﴾

ہرنفس کو مرناہے “

ان آیات سے معلوم ہوتاہے ساری کائنات تباہ ہوگی اورہر ذی روح موت سے دوچار ہوگی ۔اس کے بعد سب سے پہلے اللہ تعالیٰ حضرت اسرافیل علیہ السلا م کوزندہ کریں گے اورانہیں حکم دیں گے کہ وہ صور پھونکیں جس سے ساری مخلوق دوبارہ زندہ ہوجائے گی ۔ 

: وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّـهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ ﴿68) ( سورۃ الزمر 

حضرت مالک علیہ السلام : 

اللہ تعالی ٰ نے جس فرشتے کوجہنم کا داروغہ مقررفرمایا ہے اس کانام مالک ہے جیساکہ قرآن مجیدمیں ہے : 

إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي عَذَابِ جَهَنَّمَ خَالِدُونَ ﴿74٧٤﴾ لَا يُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ ﴿٧٥﴾

جہنم میں عذاب دینے والے فرشتے 

مالک ؑداروغہ کےعلاوہ اوربھی فرشتےہیں ، جوجہنمیوں پرمقررہیں ۔ 

سورۃا لمدثر : وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ ﴿٢٧﴾ لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ ﴿٢٨﴾ لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ ﴿٢٩﴾ عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ﴿٣٠﴾ وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِهَـٰذَا مَثَلًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚوَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ ﴿٣١﴾

ان آیات کی تفسیرمیں حافظ صلاح الدین یوسف تفسیرابن کثیر کاحاصل ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں : 

” یہ مشرکین قریش کا ردہے جب جہنم کےداروغہ کااللہ تعالیٰ نےذکر فرمایا توابوجہل نے قریش والوں سے کہا : ” کیاتم میں سے ہردس آدمیوں کاگروپ ایک ایک فرشتے کےلیے کافی نہیں ہوگا”

ان میں سے “کلدہ ” نامی شخص جسے اپنی طاقت پر گھمنڈتھاکہا: تم سب صرف دوفرشتے سنبھال لینا، سترہ فرشتوں کوتومیں اکیلاہی کافی ہوں ” ( تفسیرا حسن البیان ) 

جنت کےفرشتے :

اللہ تعالیٰ جنت کی خدمت کےلیےفرشتوں کومقررکریں گے جوانہیں آتے جاتے سلام کہیں گے ۔

جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ ﴿٢٣﴾ سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ﴿٢٤﴾

ایک اورآیت میں جنت کےفرشتوں کوچوکیدارکہاگیاہے ۔ 

وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ ﴿٧٣﴾

ہواؤں کےفرشتے: 

حضرت میکائیل ؑکوبارش برسانے،نباتات اگانے اورزمین میں رزق پیداکرنے کےلیے مامورکیاگیاہے ان کے ساتھ کچھ مددگارفرشتے بھی ہیں ۔ یہ ( رحمت) کے فرشتے ہواؤں اوربادلوں کوچلاتےہیں جس طرف اللہ تعالیٰ چاہتےہیں ۔انہی فرشتوں میں سے ایک وہ ہے جسے بادلوں پرمقرر کیاگیاہے ۔

سنن ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

” فرشتوں میں سے “رعد” ایک ایسافرشتہ ہے جسے بادلوں پرمقرر کیاگیاہے ۔

سنن ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 

فرشتوں میں سے رعد ایک ایسافرشتہ ہے جسے بادلوں پرمقررکیاگیاہے ۔اس کے پاس آگ کے کوڑے ہیں جن کے ساتھ وہ بادلوں کووہاں چلاتاہے جہاں اللہ کاحکم ہوتاہے ۔ ” ( صحیح ترمذی 3ص 64 ) 

عذاب کے فرشتے : کچھ فرشتوں کومنکرین خداپرعذاب نازل کرنے پرمامورکیاگیاہے۔انہیں الزبانیہ ( پیاروں کالشکر ،پولیس ) کہاگیاہے ۔ 

ارشاد باری تعالیٰ ہے : 

سورۃ العلق : 9 تا 19) 

أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَىٰ ﴿٩﴾ عَبْدًا إِذَا صَلَّىٰ﴿١٠﴾ أَرَأَيْتَ إِن كَانَ عَلَى الْهُدَىٰ ﴿١١﴾ أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَىٰ ﴿١٢﴾أَرَأَيْتَ إِن كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ ﴿١٣﴾ أَلَمْ يَعْلَم بِأَنَّ اللَّـهَ يَرَىٰ ﴿١٤﴾ كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ ﴿١٥﴾ نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ ﴿١٦﴾فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ ﴿١٧﴾ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ﴿١٨﴾ كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب ۩ ﴿١٩﴾

جس طرح مختلف قوموں پر عذاب کے لیے فرشتے بھیجے گئے :جیسے قوم ثمودؑ،قوم عادؑ،قوم لوط ، قوم شعیب ؑ ،قوم نوح ؑ،آل فرعون وغیرہ 

قبرکے فرشتے ( منکرنکیر ) 

قبریعنی برزخ کےلیے کوئی بھی متعین جگہ نہیں ہے روح کےجسم سے پروازکرجانےکےبعدجسم خواہ پانی میں ہو، درندہ کےپیٹ میں ہویا زمین میں مدفون ہو،سالم ہویاٹکڑے ٹکڑے اسے قبر کہتےہیں ۔

اس قبر میں نیک روح کورواحت اوربری روح کوعذاب کاسامنا کرناپڑتاہے ۔متعددآیات واحادیث سے عذاب قبرثابت ہے ۔

فَوَقَاهُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ ﴿٤٥﴾ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ ﴿٤٦﴾

اس آیت سے پتاچلتاہے کہ قیامت کے دن سے پہلے تک فرعون اوراس کی قوم پرعذاب ہورہاہے ۔

حدیث میں ہے کہ : 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: 

” جب کسی میت کوقبرمیں رکھاجاتاہے تواس کےپاس سیاہ رنگ کے نیلی آنکھوں والے دوفرشتے آتے ہیں ایک کو”منکر”دوسرے “نکیر “کہاجاتاہے وہ دونوں میت سے پوچھتے ہیں : 

تواس شخص یعنی نبی کریم ﷺ کے بارے میں کیاکہتاہے ؟ اگروہ جواب دیتا ہے کہ : وہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کےسواکوئی معبودنہیں اورمحمداللہ کےبندےاوررسول ہیں”

پھراس کی قبر سترگزوسیع کردی جاتی ہے اورکہاجاتاہے کہ سوجا،ا ب قیامت کے دن ہی جگایاجائے گا۔اگر منافق ہوگاہوکہے گا: مجھے نہیں معلوم ۔توزمین کوحکم دیاجائے گاکہ اسے دبوچ لے یہاں تک کہ اسی کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں ،اورعذاب قبرشروع ہوجاتاہے ۔ 

اعمال لکھنے والے فرشتے (کراماً کاتبین )

قرآن میں کراماً کاتبین کاذکر یوں آیا ہے :

وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ ﴿١٠﴾ كِرَامًا كَاتِبِينَ

یہ ان کانام نہیں بلکہ اعمال لکھنے کی وجہ سے ان کوکاتبین کہاگیاہے ۔ یہ فرشتے دودو کی تعداد میں ہرانسان کے ساتھ مقررہیں۔ یہ ہرلمحہ انسان کے ساتھ موجود ہوتے ہیں جہاں بھی انسان کوئی عمل کرتاہے اسے یہ فرشتے لکھ لیتے ہیں ۔ چنانچہ ارشاد ہوتاہے ۔ 

اذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ ﴿١٧﴾ مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ﴿١٨﴾

بعض روایات سے معلوم ہوتاہے دائیں جاب کافرشتہ نیکیاں اور بائیں جانب کافرشتہ برائیاں لکھتاہے ۔ 

ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

” جب گنہگار مسلمان کوئی غلطی کرتاہے توبائیں جانب والافرشتہ چھ ساعتیں رکارہتاہے اگراس دوران بندہ استغفار کرلے توفرشتہ اس کی غلطی نظرانداز کرلیتاہے اوراگر ایسانہ کرے توپھر ایک برائی کا ایک گناہ لکھ لیتاہے ۔

جبکہ نیکیاں لکھنے والا فرشتہ جوبرائیوں والے فرشتے پر نگہبان ہوتاہے ایک نیکی پر دس نیکیوں کاثواب لکھتاہے ( تفسیر قرطبی 16/17)

فرشتے انسانوں کے دلوں میں خیرڈالتےہیں : 

اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کے ساتھ ایک فرشتہ اورایک شیطان مقررکررکھاہے ۔شیطان انسان کے دل میں وسوسے اوربرےخیالات جب کہ فرشتہ اچھے خیالات پیداکرتاہے ۔انسان کی حمایت اورمخالفت میں فرشتے اورشیطان کی یہ کشمکش جاری رہتی ہے ۔ 

حضرت ہارون علیہ السلام اورحضرت ماروت :

ہارون وماروت دوفرشتے تھے جنہیں جادوکاعلم دے کرزمین پر بھیجاگیا۔ 

سورۃ البقرہ 102 میں ذکرملتاہے ۔ وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚوَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿١٠٢﴾

قرآن پاک میں صرف اتنا ہی بیان ہے ۔البتہ اسرائیلی روایات میں تفصیلات ملتی ہیں ۔ تفسیربالماثور کےحوالے سے جوتفسیر ہوئی ہے اس کاحاصل مولانا عبدالرحمٰن گیلانی ہوں بیان کرتےہیں ۔ 

اس آیت میں یہود کے ایک اورمکروہ کردار کوواضح کیاگیاہے ۔ایک زمانے میں یہود تورات کوچھوڑ کر جادو،عملیات اورتعویذ گنڈوں کے پیچھے پڑگئے ۔ یہ حضرت سلیمان ؑ کے عہد حکومت کی بات ہے انہی یہودکےاس رجحان کاعلم ہواتوتمام جادوگروں سے سب کتابیں چھین کرداخل دفترکردیں ۔ 

اب سلیمان ؑکوجومعجزات عطاہوئے وہ حکمت الٰہی کےمطابق جادوگروں کی دسترس سے باہرتھے جیسے تمام سرکش جن آپ ؑ کےلیہے مسخر کردیے گئے ، ہوااورپرندے آپ ؑ کے تابع تھے۔ 

جب حضرت سلیمان ؑ فوت ہوئے توان یہودیوں نے الزام لگایاکہ حضرت سلیمان علیہ السلام یہ سب جادوکے زور پر کرتےتھے کیونکہ ان کے پاس جادو کی بے شمار کتابیں موجودہیں ۔ 

اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے الزام کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: کفرکایہ کامن حضرت سلیمان ؑ نے نہیں کیاتھابلکہ ان شیطان لوگوں نے کیاتھاجو جادوسکھاتےتھے ۔ 

حضرت سلیمان ؑکے جودوکوروکنےکےلیےاس اقدام کے بعد اللہ تعالیٰ نےیہودکی دوسرے طریقے سے آزمائش فرمائی اورشہربابل میں ( جہاں آج کل کوفہ ہے ) دوفرشتوں ہاروت ماروت کو پیر،فقیر وں کے بھیس میں نازل فرمایاتاکہ دیکھاجائے کہ یہودیوں کوان ان پیروں فقیروں کی بابل میں آمدکاعلم ہواتوفوراًرجوع کیا۔ ان فرشتوں کویہ حکم بھی تھا کہ اگرتمہارے پاس کوئی جادوسیکھنے آئے توپہلے اسے خبردار کرناکہ کفرکاکام ہے اورمحض امتحان ہے لہذا تم اس کاارتکاب نہ کرو، پھربھی کوئی اصرارکرے توسکھادینا۔ چنانچہ لوگ ان کے پاس جادوسیکھنے آتے۔ فرشتے تنبیہ کردیتے مگر لوگ بازنہ آتے ۔

فرشتے ہمیشہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق وعدل کےقیام اورخیروفلاح کی دعوت کاذریعہ بنے ہیں اوریہی چیز ان کی شایان شان ہے، اگر ہاروت وماروت کوجادوکاعلم دے کربھیجاگیا تویہ ان کے خالق ومالک کی مرضی کےمطابق تھا جسے بعید ازعقل قرارنہیں دیاجاسکتا۔ 

فرشتوں کاآنابرائے آزماےش تھا۔ 

محافظ فرشتے جوباری باری ڈیوٹیاں دیتےہیں : 

اللہ تعالیٰ فرماتاہے : 

“اسی کےلیے باری باری آنے والے محافظ فرشتے ہیں جواللہ کے حکم سے اس کے سامنے سے اوراس کے پیچھے سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔ ( الرعد:11) 

حدیث ہے : “اورایک فرشتہ ہے جس نے تمہاری پیشانی کوپکڑا ہواہے اورجب تم اللہ کے لیے تواضع کرتے ہوتووہ تمہیں سربلندکرتاہے اورجب تم اللہ کے سامنے تکبر کرتے ہوتووہ تمہیں ہلاک کردیتاہے ، اوردوفرشتے تمہارے ہونٹوں پرہیں وہ تمہارے لیے صرف محمدﷺ پرصلوۃ کی حفاظٹ کرتےہیں اورایک فرشتہ تمہارے منہ پرمقررہے وہ تمہارے منہ میں سانپ کوداخل ہونے نہیں دیتااور دوفرشتے تمہاری آنکھوں پرمقررہیں ، ہرآدمی پریہ دس فرشتے مقررہیں ، رات کے فرشتے دن کےفرشتوں کےعلاوہ ہیں ، ہرآدمی پر یہ بیس فرشتے مقررہیں اورابلیس دن میں ہوتاہے اوراس کی اولاد رات میں ہوتی ہے ۔ ( جامع البیان : طبری ، تفسیر ابن کثیر ) 

مجاہد رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ ہربندے کے ساتھ ایک فرشتہ مقررہے ، جونیند اوربیداری میں اس کی جنات،انسانوں اورحشرات الارض سے حفاظت کرتاہے سوااس چیز کےجواللہ کے اذن سے اس کوپہنچتی ہے ۔ ( جامع البیان ) 

شب قدر میں روح کے ساتھ اترنے والے فرشتے : 

شب قدرکی فضیلت سورہ دخان آیات دو تا6 سے واضح ہے ۔

وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ ﴿٢﴾ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ﴿٣﴾ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ﴿٤﴾ أَمْرًا مِّنْ عِندِنَا ۚ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ ﴿٥﴾ رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿٦﴾

شب قدر کاقرآن سے گہراتعلق ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے اس دنیا سے آخری بار آفیشل خطاب کی ابتداء اسی رات سے ہوئی اورآپ ﷺ پر پہلی وحی آئی ۔اس عظیم بابرکت رات کوجب خداکے فرشتے اپنے سربراہ جبرائیل ؑکی نگرانی میں نازل ہوتےہیں توکسی شیطان مردودکی مجال نہیں کہ پرمارسکے ۔

اس رات اللہ کی جانب سے تمام معاملات احکمت کے ساتھ حکم دیاجاتاہے ،ا ن کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اورتنظیم کے ساتھ تمام امورکااصولی فیصلہ کردیاجاتاہے ۔

اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کےتمام معاملات جانتےہیں لیکن فرشتوں سے رپورٹ طلب کرنے کے لیے کچھ ٹائم لائن مقررہیں جیسے ارشاد ہوتاہے ۔ سورہ آل عمران 

وَلِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ﴿١٠٩﴾

دنیاکےتمام معاملات کی سالانہ رپورٹ فرشتے اس رات سے قبل اللہ کے حضورپیش کرچکے ہوتےہیں ،۔اس رات آئندہ کے لیے تمام معاملات کوحتمی شکل دے دی جاتی ہے اسی کوہم تقدیر یعنی منصوبہ بندی اورتنظیم کہ سکتے ہیں ۔

مثال کے طورپر بارشیں کتنی ہوں گے ،زلزلے ،سیلاب آئیں گے ، کہاں آئیں گے ، فصل اگے گی ، خوشحالی ہوگی یاتنگدستی ،وباپھیلے گی یانہیں ، نئے ستاروں کی تخؒیق ہوگی یاپرانے ستاروں کی موت، کائنات بگ بینگ کے اثر سےمزید کتنا پھیلے گی ،موسم میں کیاتغیرات ہوں گے ، قوموں کےعروج وزوال کامعاملہ وغیرہ ۔

اسی طرح کسی شخص کی رزق کی کشادگی، تنگی ،صحت، بیماری ، موت،تعلیم وغیرہ کے بارے میں منصوبے ہوسکتے ہیں ،ان تمام فیصلوں میں اللہ کی حکمت کار فرماہوتی ہے ۔ 

اس رات فرشتے نازل ہوتے رہتے ہیں جوفجر تک رہتے ہیں ،یہ رات بہت اہم ہے کیونکہ اللہ کی خصوصی توجہ دنیاوالوں پر ہوتی ہے ۔ا ورجزاوسزاکے معاملات بہت تیز ہوجاتے ہیں چنانچہ اسی رات مانگی گئی دعاؤںکی خصوصی اہمیت ہے اسی لیے اس رات کوہزار مہینے سے بہتر کہاگیاہے ۔

اسی رات ہر شخص کواپنی گزشتہ زندگی کاجائزہ لیناچاہیے کہ کیاکھویا، پایا ،کیاگناہ کیا، آئندہ کالائحہ عمل کیاہوگا، یہ وہ کام ہےجوخدا کے فرشتے کررہے ہوتے ہیں اس رات زیادہ سے زیادہ توبہ استغفار کریں ،اپنا احتساب کریں ،نوافل پڑھیں ، عین ممکن ہے کہ اس اخلاص کی بناء پرتقدیروں والی رات میں ہمارے لیے دنیا وآخرت کی بھلائی لکھ دی جائے ۔ 

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نےفرمایا: 

” لیلۃ القدر کوجبرئیل فرشتوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ اترتا ہےاورملائکہ کایہ گروہ ہرا سی بندے کے لیے دعائے مغفرت اورالتجائے رحمت کرتاہے جوکھڑے ہوکر یابیٹھے ہوئے اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتاہے ۔ 

کائنات کے مختلف امور انجام دینے والے فرشتے : 

فرشتوں کی ایک جماعت درودسلام کونبی اکرم ﷺ تک پہنچانے پرمقررہے ۔ ( سنن وابوداؤد ) 

کچھ فرشتے دنیامیں گھومتے رہتے ہیں اور جہاں اللہ تعالی کاذکر ہوتاہے ۔وعظ ونصیحت ،قرآن کریم یادینی علوم پڑھے یاپڑھائے جاتے ہوں وہاں فرشتے حاضر ہوتے ہیں تاکہ وہاں پر شریک لوگوں کی اللہ تعالیٰ کے سامنے گواہیدیں ۔ دنیا میں جوفرشتے کام کرتے ہیں ان کی صبح وشام تبدیلی بھی ہوتی ہے ۔

اللہ کی تسبیح وتحمید کرنے والے فرشتے 

قرآن کریم میں فرشتوں کی اطاعت اورتسبیح وتحمید کے بارے میں ارشاد ہوتاہے : 

وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ ﴿١٩﴾ يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ ﴿٢٠﴾

ایک دوسرے مقام پر ان کی فرمانبرداری کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے ۔ 

لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ﴿٢٧

کائنات کاہرذرہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتاہے ، ہرطلوع وغروہب ہونے والے سورج کےساتھ کائنات کی ہر شے اپنے رب کاتمام عیوب سے پاک ہوناظاہرکررہی ہے بلکہ تمام تعریفوں کامستحق ہونابھی بیان کررہی ہے ۔

انسان زمین پر اللہ کاخلیفہ ہے اسے سب سے زیادہ تسبیح بیان کرنی چاہیے مگرافسوس یہ اپنے مالک کےذکر سے غافل ہے ۔

ارشاد رسول اکرم ﷺ ہے :

” ہرروز جب رسول طلوع ہوکر بلند ہوتاہے توکائنات میں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں کوئی بھی چیزایسی باقی نہیں رہتی جواللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید نہ بیان کرتی ہو سوائے شیطانوں اورغافل انسانوں کے ۔ 

(صحیح الجامع الصغیر ) 

انسان کی تخلیق اورفرشتے 

انسان کی تخلیق کےحوالے سے فرشتوں کاکردار کیاہے ؟ 

اس کی تفصیل درج ذیل احادیث سے پتہ چلتاہے : 

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 

“اللہ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کررکھاہے جوکہتا ہے کہ اے رب ! یہ نطفہ قرارپاگیاہے ۔ 

اے رب ! اب یہ جماہوا خون (علقہ ) بن گیاہے ۔

اے رب ! اب یہ گوشت کالوتھڑا بن گیاہے ۔ 

پھر جب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اس کی پیدائش پوری کردیں تووہ پوچھتاہے کہ اے رب ! یہ لڑکا ہے یالڑکی ؟ نیک ہے یابرا؟ 

اس کی روزی کتنی ہوگی ؟ اس کی موت کب ہوگی ؟ اسی طرح یہ ساری باتیں ماں کے پیٹ میں ہی لکھ دی جاتی ہیں ۔” 

( صحیح بخاری )

اپنا تبصرہ بھیجیں