قرآنی آیات سے وساوس

ایسا ہوتا ہے کہ کوئی قرآنی آیت زیادہ پڑھنے سے انسان وسوسوں کا شکار ہوجائے؟
الجواب باسم ملهم الصواب
قرآنی آیات پڑھنے سے انسان وساوس کا شکار نہیں ہوتا بلکہ وساوس اس سے دور ہوجاتی ہیں۔ یہ لوگوں کا غلط تاثر ہے جس کی کوئی اصل نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1. وَاِمَّا يَنۡزَغَـنَّكَ مِنَ الشَّيۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰهِؕ اِنَّهٗ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ. (الأعراف: 200)
ترجمہ: اور اگر کبھی شیطان کی طرف سے تمہیں کوئی کچوکا لگ جائے تو اللہ کی پناہ مانگ لو۔ یقینا وہ ہر بات سننے والا، ہر چیزجاننے والا ہے۔
تفسیر: کچوکے سے مراد وسوسہ ہے۔ اور اس آیت نے ہر مسلمان کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب کبھی شیطان دِل میں کوئی بُرے خیال کا وسوسہ ڈالے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہئے۔ اس بات کا ذکر خاص طور پر درگذر کا رویہ اپنانے کے سلسلے میں کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں درگذر کرنے کی فضیلت ہے، وہاں بھی اگر شیطانی اثر سے کبھی کسی کو غصہ آجائے تو اُس کا علاج بھی اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنا ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی دامت برکاتھم: 1/513)
(وَاِمَّا يَنۡزَغَـنَّكَ) اس جگہ مراد ہے شر پر برانگیختہ کرنا، ابھارنا، وسوسہ ڈالنا۔ (فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰهِؕ) تو اللہ تعالی سے بچاؤ کی طلب کرو، اللہ تعالی کی پناہ مانگو، امر کا جواب محذوف ہے یعنی اللہ تعالی، شیطان کے اغواء اور وسوسے کو رفع کردے گا۔ (تفسیر مظہری اردو: 4/306)
2. وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ للمومنين (سورہ بنی اسرائیل: 82)
ترجمہ: یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔
3. یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔ (سورہ یونس: 57)
ترجمہ: اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لئے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے۔
4. قُل هُوَ لِلَّذينَ آمَنوا هُدًى وَشِفاءٌ. (سورہ فصلت: 44)
ترجمہ: کہہ دیجئے! کہ یہ ( قرآن ) تو ایمان والوں کے لئے ہدایت و شفا ہے ۔
5. وَقُل رَّبِّ أَعُوْذُبِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَ أَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ. ( المؤمنون: 98-97)
ترجمہ: اور کہ دیجیے کہ، اے میرے رب! میں شیطان کے لگائے ہوئے چرکوں سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں، اور میرے رب! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ وہ میرے قریب آئیں۔
6. قال ابو هريرة رضي الله عنه: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:”ياتي الشيطان احدكم، فيقول: من خلق كذا من خلق كذا حتى، يقول: من خلق ربك فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته”.(رواه البخاري: 3276)
ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور تمہارے دل میں پہلے تو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی، فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ اور آخر میں بات یہاں تک پہنچاتا ہے کہ خود تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب کسی شخص کو ایسا وسوسہ ڈالے تو اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے، شیطانی خیال کو چھوڑ دے۔”
7. يُوشِكُ الناسُ يتساءلونَ ، حتى يقولَ قائِلُهم : هذا اللهُ خلق الخَلْقَ فمَن خلق اللهَ ؟ فإذا قالوا ذلك فقولوا : اللَّهُ أَحَدٌ ، اللَّهُ الصَّمَدُ ، لَمْ يَلِدْ ، وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ثم لِيَتْفُلْ عن يَسَارِهِ ثلاثًا ولْيَسْتَعِذْ من الشيطانِ۔ (رواه أبو داود: 4722)
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ ایک دوسرے سے برابر سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا، اللہ نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ جب لوگ ایسا کہیں تو تم کہو: الله أحد، الله الصمد ،لم يلد ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد. اللہ ایک ہے وہ بے نیاز ہے، اس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے ۔ پھر وہ اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوکے اور شیطان سے پناہ مانگے۔
واللہ أعلم بالصواب
08 رجب 1444ھ
30 جنورى 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں