قربانی کا نصاب

فتویٰ نمبر:28

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

بخدمت گرامی محترمی و مکرمی صاحب زید مجدھم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

جیسا کہ آپ حضرات کے علم میں ہے کہ قربانی کے نصاب سے متعلق کافی عرصے سے علمی حلقوں میں یہ تشویش چلی آ رہی ہے  کہ اس کا نصاب چاندی کے ساتھ مربوط کرنے میں فی زماننا کافی حرج لازم آتا ہے،  جس کی وجہ سے معاشرے کے بہت سے غریب افراد پر بھی قربانی لازم ہو جاتی ہے کیونکہ چاندی کی قیمت مسلسل گھٹتی گھٹتی اتنی کم ہو چکی ہے کہ معاشرے کے بہت سے غریب ترین افراد بھی اس کے مالک ہو جاتے ہیں،  دوسری طرف جانوروں کی قیمتیں بھی بہت بڑھ چکی ہیں، لہذا اگر نصابِ چاندی کے مالک پر قربانی واجب کی جائے تو مناسب جانور خریدنے کے لیے اس کو ایک تہائی سے زیادہ نصاب خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جس میں حرج کا پایا جانا ظاہر ہے۔

چناچہ اس سلسلے میں ہمارے دارالافتاء میں بھی کچھ عرصے سے تحقیق کی جارہی تھی۔ دارالافتاء کے ایک رفیق مولوی محمد طلحہ ہاشم نے اس سلسلے میں ایک تحریر تیار کی ہے، جس کو حضرت اقدس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم العالی نے ملاحظہ فرما کر تصدیقی تحریر لکھ دی ہے، نیز دارالافتاء کہ دیگر حضرات کے تصدیقی دستخط بھی موجود ہیں۔ البتہ حضرت مد ظلہم نے اس تحریر کے مطابق فتویٰ جاری کرنے سے پہلے دیگراہل علم سے موافقت حاصل کرنے کی تاکید فرمائی ہے، لہذا اس تحریر کی نقل آپ کی طرف ارسال ہے آپ سے درخواست ہے کہ اپنے قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت نکال کر اس کو ملاحظہ فرمائیں اور غور فرما کر اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔

 والسلام

عبدالروف سکھروی

ناظم دارالافتاء جامعہ دارالعلوم

۲۳/ذیقعدہ/۱۴۳۷ھ

۲۷/اگست/۲۰۱۷ء

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

آجکل چاندی کے اعتبار سے نصاب قربانی بہت کم بنتا ہے اور دوسری طرف قربانی کے جانوروں کی قیمت روز بروز بڑھتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے غریب بلکہ درمیانے درجے کے افراد کے لیے بھی قربانی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں کیا اب بھی قربانی کا نصاب چاندی کے اعتبار سے (تیس پینتیس ہزار)ہی ہوگا یا سونے کی قیمت لگا کر اس کے حساب سے قربانی کا نصاب مقرر کرنے کی اجازت ہے۔ آپ علمائے کرام سے درخواست ہے کہ براہ کرم معاشرے کے غریب افراد کے حالات کو مدنظر رکھ کر قرآن و حدیث کی روشنی میں شرعی حکم سے آگاہ فرمائیں جزاکم اللہ خیرا

محمد عبداللہ

 النور سوسائٹی فیڈرل بی ایریا کراچی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 الجواب حامدا و مصلیا

واضح رہے کہ احادیث میں قربانی کو مالی وسعت کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے:

المستدرك على الصحيحين للحاكم۔(۴/۲۵۸)

عن ابي هريره رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه و سلم: “من كان له مال فلم يضح فلا يقربن مصلانا” و قال مرۃ “من وجد سعۃ فلم یذبح فلا يقربن مصلانا” هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه

لہذا قربانی اس شخص پر واجب ہوگی جو سعی میں وسعت اور غنی ہو۔ فقہ حنفی کی رو سے غنی وہ ہیں جو صاحب نصاب ہو اور چاندی و سونے کا نصاب دو حدیث میں منصوص ہے، لیکن دیگر اشیاء یعنی سامان ِ تجارت وغیرہ (جس میں ہماری کرنسی بھی داخل ہے) کہ نصاب کیا ہے؟ اس سلسلے میں احادیث میں کوئی صراحت نہیں ملتی۔ علماء نے کتاب الزکوۃ میں اس کا نصاب یہ طے کیا ہے کہ ان اشیاء کی قیمت چاندی یا سونے کے نصاب میں سے کسی کو پہنچے تو ان پر زکوۃ لازم ہوگی۔ حنفی کی ظاہرالروایۃ کے مطابق مالک کو اختیار ہے کہ وہ اپنے مال تجارت کی قیمت سونے یا چاندی میں سے جس کے حساب سے لگانا چاہے لگا سکتا ہے(یعنی اس پر کم قیمت نصاب کی پابندی لازم نہیں ہے) مبسوط سرخسی، تبیین الحقائق ،النھرالفائق ،فتاویٰ تاتارخانیہ اور تقریراتِ رافعی وغیرہ میں اس کی تصریح ہے کہ مالک کا مختار ہونا ہی ظاہرالروایۃ ہے۔

جب کہ امام ابو حنیفہ رحم اللہ کی ایک روایت یہ ہے کہ مالک کے لیے انفع للفقراء  کی پابندی لازم ہوگی لہٰذا ان اشیاء (مال تجارت اور کرنسی وغیرہ) کی قیمت سونے سے جس کے نصاب کوپہلے پہنچ جائے اسی کے مطابق زکوۃ لازم ہوجائے گی اور دوسرے نصاب کا انتظار کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی ہے کہ زکوۃ فقراء کے فائدے کے لئے واجب ہوتی ہے اور فقراء کا فائدہ اسی میں ہے کہ چاندی کے کم قیمت نصاب پر زکوۃ لازم ہوجائے کیونکہ اس کی وجہ سے زیادہ لوگوں پر لازم ہوگی اور جتنے زیادہ لوگوں کا زکوۃ لازم ہوگی اتنے ہی زیادہ فقراء کی امداد ہوسکے گی۔

لیکن یہ روایت حنفیہ کی ظاہرالروایۃ نہیں ہے بلکہ مبسوط و نہر وغیرہ میں اس کو “ایمالی” اور “نوادر” کی محض ایک روایت قرار دیا گیا ہے۔

البتہ بعض حضرات مثلا علامہ زیلعی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس کو امام صاحب کے مذہب سے بھی تعبیر کیا ہے۔ نیز زکات کے باب میں اس مسئلہ پر عمل کرنے میں احتیاط بھی ہے اس لیے زکوۃ کے معاملے میں آج کل کے مطابق چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا جاتا ہے اور یہ فتویٰ دیا جاتا ہے کہ جس شخص کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت (سالِ رواں کے حساب سے تقریبا39 ہزار) کے بقدر اموال زکوۃ ہو تو اس پر زکوۃ لازم ہوگی۔ اس میں اتنا زیادہ حرج بھی نہیں کیونکہ زکوۃ کی مقدار چالیسواں حصہ ہے لہذا 39ہزار کی زکوٰۃ 975 روپے بنے  گی۔

لیکن اگر نوادر کی اس روایت پر عمل کرتے ہوئے قربانی کا مدار بھی چاندی کے نصاب پر رکھ دیا جائے تو اس میں فی زماننا  برا حرج لازم آتا ہے کیونکہ چاندی کی قیمت انتہائی گھٹ گئی ہے لیکن جانوروں کی قیمت پہلے کی طرح بدستور وہی ہے، اس کی وجہ سے چاندی کے نصاب اور قربانی کے جانور میں وہ تناسب قائم نہیں رہا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا۔ چناچہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک بکرے کی قیمت آدھے دینار سے ایک دینار (پانچ درہم سے دس درہم) ہوتی تھی۔ یعنی چاندی کے نصاب (دوسو درہم) کے بدلے کم از کم بیس بکرے آسکتے تھے لیکن آج کل(اگست  2016 میں) درمیانے درجے کا بکرے کی قیمت تقریبا پندرہ سے بیس ہزار پاکستانی روپے ہے اس حساب سے 39 ہزار پاکستانی روپے کے بدلےمحض دو تین مناسب بکرے ہی آ سکتے ہیں دنیا کے دیگر ممالک میں تقریبا یہی تناسب ہے چنانچہ ہماری معلومات کے مطابق:

بنگلہ دیش میں نصاب 31 ہزار  ٹکے ہیں اور مناسب بکرے کی قیمت 12000 ٹکے ہے۔

بھارت میں نصاب تقریبا 27590 روپے ہے اور مناسب بکرا تقریبا دس ہزار تک ہے۔

سعودی عرب میں نصاب 12 سو ریال ہے اور مناسب بکرا 500 ریال (135 ہزار روپے پاکستانی) کا ہے۔

برطانیہ میں مناسب بکرے کی قیمت 125 پاؤنڈ (18 سے 20 ہزار پاکستانی روپے) ہے

اور امریکہ میں نصاب تقریبا 315 ڈالر ہیں جبکہ وہاں صحیح بکرا 250 ڈالر سے 400 ڈالر (25 سے40 ہزار پاکستانی روپے) تک ہے یعنی آدھے نصاب سے بھی بہت زیادہ۔

مقصد یہ کہ پوری دنیا میں چاندی کی قیمت بہت زیادہ گھٹ گئی ہے اور قربانی کا جانور اس نصاب کے نصف یا ایک تہائی قیمت میں ملتا ہے نیز قربانی کے نصاب میں زکوٰۃ کے نصاب کے برخلاف ضرورت سے زائد سامان کو بھی شمار کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے کے بہت سے نادار لوگوں پر قربانی واجب ہوجاتی ہے مثلاً:

۱)۔۔ اگر کوئی غریب شخص چھوٹی سی دکان بلکہ سڑک کے کنارے ٹھیلا بھی لگائے تو اس کے کے سامانِ تجارت کی قیمت چاندی کے نصاب کو پہنچ جاتی ہے اگر سامانِ تجارت کی قیمت خود اس نصاب کو نہ پہنچے تو اس کے گھر پر موجود اکّادکّا ضرورت سے زائد اشیاء اس نصاب کو پورا کر دیتی ہیں اور اس پر قربانی لازم ہوجاتی ہے۔ اگر ایسا شخص اپنا آدھا یا کم از کم ایک تہائی سرمایہ قربانی کرنے کی خاطر فروخت کردیں تو دوبارہ کاروبار کرنے (ٹھیلا لگانے) کے لئے اس کو قرض لینے کی بھی نوبت آسکتی ہے جس میں حرج کا ہونا ظاہر ہے، حالانکہ حج جیسے قطعی فرض میں بھی اس بات کی رعایت کی جاتی ہے کہ ایک کاروباری شخص جس کی ملکیت میں تجارت کے علاوہ کوئی وقوم نہ ہو اس پر حج کس وقت فرض ہوتا ہے جبکہ اسکے پاس آنے جانے اور گھر پر بھی بچوں کے نان ونفقہ کے علاوہ کم از کم اتنی بڑی رقم لے کہ واپس آکر وہ اس رقم سے دوبارہ کاروبار کرسکے جبکہ قربانی کاوجوب ہیں مختلف فیہ ہے،لہذا اس میں اس بات کی ریایت کے بغیر قربانی کا واجب ہونا محل نظر ہے۔

۲) آجکل ایک تولہ سونے کی قیمت بھی چاندی کے مکمل نصاب سے اچھی خاصی زائد ہے (چاندی کا نصاب 39 ہزار اور ایک تولہ سونا تقریبا 53000 کا ہے) لہذا اگر کوئی غریب عورت ایک آدھ تولہ سونے کا زیور بنا لے، متضاد ہیں اس کے پاس قربانی کے دنوں میں کیسے سو دس روپے دیا جاۓ تو اس پر قربانی لازم ہوجاتی ہیں۔ اگر قربانی کرنے کے لیے اس کے پاس رقم نہ ہو تو شرع اس پر اپنے زیور بیچ کر قربانی کرنا لازم ہوگا۔

۳)کوئی شخص اپنے کسی پیش آنے والے ضرورت مثلا بچے کی ولادت وغیرہ کی خاطر اپنی سال بھر کی کمائی سے بچا بچا کر بڑی مشکل سے تیس چالیس ہزار روپے جمع کرے اور درمیان میں قربانی کے دن آجائیں چاندی کے نصاب کے اعتبارسے تو اس پر قربانی لازم ہوجائے گی، اور اسکی اپنی ضرورت پوری نہ ہو سکیں یا اسکو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے کسی سے قرض لینا پڑے گا۔ وفیہ من الحرج ما لا یخفی۔

۴)کسی عیال دار شخص کی ماہانہ آمدنی پچیس تیس ہزار ہو جس میں سے چار پانچ ہزار روپے اس کے یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی میں ہی خرچ ہو جاتے ہوں اور بقیہ رقم بڑی مشکل سے اس کے پانچ سات افراد پر مشتمل گھرانہ کے لیے کافی ہوتی ہوں ایسے شخص کو اگر بقر عید سے دو تین دن پہلے تنخواہ ملے تو چاندی کے نصاب کے اعتبار سے اس پر قربانی لازم ہونے کا قوی امکان ہے، اگر وہ قربانی کرلیتا ہے تو بقیہ مہینے کی ضروریات کے لیے اس کو قرض وغیرہ لے کر گزارہ کرنا ہوگا یہ اور اس طرح کی بہت سی مثالیں ہمارے معاشرے میں مل سکتی ہیں جس میں چاندی کے اعتبار سے قربانی لازم کرنے میں حرج لازم آتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ چاندی کی قیمت گھٹ جانے کی وجہ سے آج کل معاشرے کے بہت سے غریب افراد پر بھی قربانی لازم ہو جاتی ہے جس میں شدید درد ہے جبکہ سونے کا نصاب فی تولہ 53 ہزار کے حساب سے 397500 ہیں جس کے بدلے بیس بائیس مناسب بکرے آ جاتے ہیں ،جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی نصاب کے بدلے اتنے ہی بکرے آتے تھے نیز یہ نصاب اتنا زیادہ بھی نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے قربانی صرف زیادہ امیر لوگوں پر لازم ہو کر رہ جائے، لہذا قربانی کے معاملے میں چاندی کی بجائے سونے کے نصاب ہی کو مدار بنانا چاہیے جس کی فقیہی تکییف یہ ہو سکتی ہے کہ:

حنفیہ کے ظاہرالروایۃ میں کرنسی اور مال تجارت کی قیمت لگانے میں مالک کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ سونے چاندی میں سے جس کے اعتبار سے اپنی مال کرنسی کی قیمت لگانا چاہے لگا سکتا ہے۔ چناچہ مبسوط میں ہے:

قال فی الکتاب ویقومھا یوم حال الحول علیھا إن شاء بالدراھم و إن شاء بالدنانیر وعن أبی حنیفۃ ۔ رحمہ اللہ تعالیٰ ۔ فی الأمالی أنہ یقومھا بأنفع النقدین للفقراء ۔۔۔۔ وجہ روایۃ الکتاب أن وجوب الزکاۃ فی عروض التجارۃ باعتبار مالیتھا دون أعیانھا، والتقویم لمعرفۃ مقدار المالیۃ ۔والنقدان فی ذلک علی السواء فکان الخیار إلی صاحب المال یقومھا بأیھما شاء۔

ہدایہ میں ہے:

الھدایۃ فی شرح المبتدی ۔ (۱/۱۰۳ )

ثم قال ” یقومھا بما ھو أنفع للمساکین ” احتیاطا لحق الفقراء قال رضی اللہ عنہ وھذا روایۃ عن أبی حنیفۃ رحمہ اللہ وفی الأصل خیّرہ لأن الثمین فی تقدیر قسم الأشیاء بھما سواء وتفسیر الأنفع أن یقومھا بما یبلغ نصابا۔

بدائع میں ہے:

بدائع الصنائع، دار الکتب العلمیۃ۔ (۲1/۲ )

و إذا کان تقدیر النصاب من أموال التجارۃ بقیمتھا من الذھب و الفضۃ وھو أن یبلغ قیمتھا مقدار نصاب من الذھب و الفضۃ فلا بد من التقویم حتی یعرف مقدار النصاب ثم بماذا تقوم؟ ذکر القدوری فی شرحہ مختصر الکرخی أنہ یقوم بأوفی القیمتین من الدراھم و الدنانیر حتی إنھا إذا بلغت بالتقویم بالدراھم نصابا و لم تبلغ بالدنانیر قومت بما تبلغ بہ النصاب و کذا روی عن أبی حنیفۃ فی الأمانی أنہ یقومھا بأنفع النقدین للفقراء ۔۔۔۔۔۔۔۔ وعند محمد یقومھا بالنقد الغالب علی کل حال و ذکر فی کتاب الزکاۃ أنہ یقومھا یوم حال الحول إن شاء بالدراھم و إن شاء بالدنانیر۔

البحر  الرائق   میں  ہے:

واشار  بقولہ   ورق   او   ذھب الی   انہ خیر ان  شاء  قومھا  بالفضۃ   وان  شاء  بالذھب،   لان  التعیین  فی   تقویم    قیم  الاشیاء  فما  سواہ،   وفی  النھایۃ  لو کان تقویمہ    باحد   النقدین   یتم  النصاب  وبالاخر  لا    فانہ   یقومہ   بما  یتم   بہ   النصاب   بالاتفاق۔

 وفی   الحلامۃ   ایضا   ما یعید   بہ  الاتفاق   علی   ھذا   وکل   مھما  مموع   فقد   قال   فی  الظھیریۃ   احل   لہ   عبد   للتجارۃ ان  قوم   بالدراھم لا   تجب  فیہ   الزکوۃ  ،   اون   قوم   بالدنانیر   فتجب  فعند  ابی   حنیفۃ   یقوم   بما  تجب  فیہ   الزکوۃ     دفعا    لحاجۃ   الفقیر    وھذا   لحالتہ،   اقال  ابا   یوسف   رحمہ  الللہ:    یقوم  بما   اشتری     وان   اشتراہ  بغیر   النقدین    یقوم   بالنقد  الغالب۔

تبیین الحقائق   میں ہے:

التبیین   الحقائق   مع  حاشیۃ   الشلبی   المطیعۃ   الکبری   الامیریۃ،۔(۱/۲۷۹)

قال   رحمہ  اللہ ۔(    وفی   عروض   تجارۃ بلغت   نصاب    ورق    او   ذھب)   یعنی   فی   عروض   التجارۃ    یجب   ربع   العشر    ازا   بلغت   قیمتھا   من الذھب  او  الفضۃ   نصابا   وعتبر   فیھما الانفع ایھما کان  انفع  للمساکین۔۔۔۔۔واعتبار   الانفع   مذھب  ابی  حنیفۃ   رحمہ  اللہ   ومعناہ   یقوم  بما   یبلغ  نصابا    ان  کان   یبلغ   باحدھما  ولا یبلغ   بالاخر     احتیاطا   لحق  الفقراء      وفی  الاصل خیرہ  لان   التعیین  فی  تقدیر  فھم   الاشیاء   فما   سواہ۔

فتاوی   تاتار   خانیہ   میں   ہے:

الفتاوی    التاتار  خانیہ، الفصل   الثالث فی  بیانزکاۃ  عراض  التجارۃ،  فاروقیۃ (۳/۱۶۳) اذا  وجب  مقدار  الاعتبار   فما   یعتبر ایھما؟ ذکر  محمد  رحمہ  اللہ   ان   المالک فیہ   بالخیار،  ان  شاء   قوم  بالدراھم   وان   شاء  قوم  بالدنانیر ولم  یحک   فیہ  خلاقا۔  وعن  ابی  حنیفۃ   رحمہ  اللہ  انہ   یقوم   بما  فیہ   ایجاب  الزکوۃ  حتی  اذا  بلغ  بالتقویم   باحدھما    نصابا  ولم یبلغ   بالاخر  قوم  بما  یبلغ  نصابا،   وھو   احدی  الروایتین  عن  محمد  رحمہ  اللہ۔

النھر  الفائق  میں  ہے:

النھر  الفائق (۱/۴۴۱):

والمذکور   فی   الاصل   ان  المالک   خیر   فی   تقویمھما بایھما  شاء  و عن الامام   فی  روایۃ   النوادر یقومھا  بالانفع  للفقراء وجعلہ   الشاراھ  مذھب الامام۔

تقریرات   رافعی  میں ہے:

التحریر  المختار  تقریرات للرافعی رحمہ  اللہ (۲/۱۳۲)

وانظر  السدی۔۔۔۔ذکر  عن  الرحمن حسن  موقع  قول  الدرر   “قوم   بالانفع  للفقراء” والذی  فی  کان  النسفی: ذکر   فی  الاصل  ان  المالک  بالخیار ان  شاء  قومھا  بالدراھم  وان  شاء   قومھا  بالدنانیر بلا ذکر خلاف لانہ مال احتیج فیہ الی التقویم فیقوم بالذھب او الفضۃ کضمان المتلفات، و عن ابی حنیفۃ انہ یقومھا بانفع النقدین للفقراء احتیاطا حتی اذا بلغت بالتقویم باحدھما نصابا و لم تبلغ بالاخر قوم بما بلغ بکل منھما نصابا یقوم بما ھو اروح وان تساویا فی الرواج یتخیر المالک انتھی وکأن المصنف اختار متابعۃ الاصل لان ما فیہ ھوا المذھب ولعل الشارح اشار الی التوفیق اذ ھو المتعین حیث امکن فما سلکہ المصنف لیس احسن بما فی الدرر اذ ما فیھا روایۃ عن الامام وعلی مافعلہ الشارح لا خلاف فی الروایۃ تأمل۔

اس اختیار کی تائید  حضرت عمر رضی اللہ  عنہ سے مروی ان  چند آثار سے بھی ہوتی ہے جو سنن بیہقی، مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن شیبہ وغیرہ میں  مروی ہیں، جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک تاجر کو زکاۃ ادا کر نے کی تاکید کرتے ہوئے مطلق ” تقویم ” کا حکم دیا ہے۔ ان آثار میں چاندی ، سونے یا نفع للفقراء کے ساتھ ” تقویم ” کے لازم ہونے کوئی صراحت نہیں ہے۔

سنن الکبری للبیھقی ــ( ۲۴۸/۴ )

عن ابی عمرو  حماس، ان اباہ قال: مررت بعمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ و علی عنقی آدمۃ احملھا فقال عمر: ” الا تؤدی زکاتک یا حماس ” فقلت: یا امیر المؤمنین ما لی غیر ھذہ التی علی ظھری و آھیۃ فی الفرظ، فقال ” ذاک مال فضع ” ، قال: فوضعتھا بین یدیہ فحسبھا فوجدت فقد وجبت فیھا الزکاۃ، فاخذ منھا الزکاۃ لفظ حدیث سفیان ، و حدیث جعفر بن عون مختصر ، قال: کان حماس یبیع الادم و الجعاب، فقال لہ عمر رضی اللہ عنہ: أد الزکاۃ مالک، فقال انما مالی جعاب و آدم، فقال قومہ و أد زکاتہ۔

السنن الصغیر للبیہقی ــ (۵۷/۲ )

عن ابی عمر بن حماس، قال: کان حماس یبیع الآدم و الجعاب فقال لہ عمر : أد زکاۃ مالک، قال: انما مالی فی جعاب و آدم فقال: قومہ و أد زکاتہ

مصنف عبد الرزاق الصنعانی ــ (۹۶/۴ )

عن حماس قال: مر علی عمر، فقال ” أد زکاۃ مالک، قال فقلت: ما لی مال ازکیہ الا فی الحفاف والآدم قال: فقومہ و أد زکاتہ “

بہرحال زکوۃ کے مسئلہ میں اگرچہ ظاہرالروایۃ کو چھوڑ کر نوازی کی روایت پر احتیاط فتوی دیا جاتا ہے۔ لیکن قربانی کے مساءل ہمیں اس پر فتوی دینا دو وجہوں سے قابل غور ہے:۱) فی زماننا

اس میں شدید حرج ہے۔۲) زکوۃ کے مسئلہ میں نوادر کی روایت پر فتوی دینے کی وجہ یہ تھی کہ زکوۃ کا مقصد ہی فقیر کی حاجت پوری کرنا ہے، اور چاندی کے نصاب پر زکوۃ لازم کرنا “انفع للفقراء” ہے۔ تاہم قربانی کا مقصد فقراء کی حاجت برآری نہیں ہے اسلئے یہاں ظاہر الروایۃ کو چھوڑ کر نوادر کی “انفع للفقراء” والی روایت پر فتوی دینے کی کوئی درست توجیہ نظر نہیں آتی (بلکہ یہاں انفع للفقراء یہی معلوم ہوتا ہے کہ فقراء پر قربانی لازم نہ کی جائے) لہٰذا قربانی کے مسئلہ میں اس مسئلہ کی نوادر روایت کی بجائے ظاہر الروایۃ پر ہیں فتوی دیتے ہوئے یہ کہنا چاہیے گے اگر کسی شخص کے پاس سونا یا چاندی کا مکمل نصاب نہ ہو بلکہ کرنسی اور مال تجارت وغیرہ ہو تو مالک کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنی کرنسی اور سامان کی قیمت چاندی کی وجہ سونے سے لگائے اور اگر اس کے پاس ہونے کے نصاب کے برابر یہ اشیاء نہ ہوں تو چاندی کے نصاب کا اعتبار کرتے ہوئے اس پر قربانی کرنا لازم نہیں ہوگی۔ البتہ اگر وہ چاندی کے نصاب کا اعتبار کرتے ہوئے قربانی کر لے تو یہ زیادہ بہتر اور احتیاط کے زیادہ قریب ہے۔

واللہ اعلم

پی ڈی ایف فائل میں فتویٰ حاصل کرنےکےلیےلنک پرکلک کریں :

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/651044075264841/

اپنا تبصرہ بھیجیں