السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
ماہ رمضان کی آمد آمد ہے۔ رمضان کا مہینہ نیکیوں کا سیزن ہے۔ سیزن میں ہر چیز آسانی سے میسر آجاتی ہے۔ ہر جگہ آسانی سے مل جاتی ہے اور سستی بھی چیز مل جاتی ہے۔تھوڑی محنت سے زیادہ فائدہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح رمضان بھی نیکیوں کا سیزن ہے۔ اس میں نیکی کرنا آسان، محنت کم اور ثواب زیادہ ہے۔ بعض لوگوں کو سال بھر میں تہجد نصیب نہیں ہوتی۔ رمضان میں ان کو تہجد نصیب ہوجاتی ہے۔ اس لےے ہم سب کو اس سیزن سے فائدہ حاصل کرنا اور پورا پورا نفع لینا ضروری ہے۔ خاص طور پر تاجر حضرات کے لےے اﷲ نے یہ موقع دیا ہے کہ وہ اس سیزن میں تھوڑے وقت میں نیکیوں کو بہت زیادہ کما سکتے ہیں۔
بعض تاجروں کو دیکھا ہے کہ وہ رمضان میں اپنی دکان اور کاروبار کے اوقات میں کمی کرکے کچھ وقت خاص اﷲ کے لے نکالتے ہیں۔ ہمارے حضرت شیخ حضرت مولانا محمد یحیٰ مدنی نے ایک مشہور تاجر محترم یاسین صاحب کے بارے میں بتلایا کہ وہ عصر میں دکان بند کرکے سیدھے مسجد میں آتے تھے اور قرآن کی تلاوت وغیرہ میں مشغول ہوجاتے۔ مسجد میں افطار کرتے اور رات تراویح پڑھ کر گھر جاتے۔ یعنی انھوں نے ےہ سارا وقت اﷲ کو دیدیا اور جہاں رمضان دنیا کمانے کا سیزن ہے اسے نیکی کمانے کا سیزن انہوں نے بنا لیا۔ حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ملازموں اور مزدوروں کے کام میں رمضانوں میں تخفیف کرنی چاہےے! جس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ اس ماہ ملازمین سے محنت کم لی جائے لیکن ان کی تنخواہ اور حق الخدمت پوری ادا کی جائے، ورنہ تخفیف کے کوئی معنی نہیں۔ کیونکہ ملازم دوسرے کا پابند ہوتا ہے۔ اللہ کے نبی ؐ نے اسے یہ نہیں کہا کہ تم کم کام کرو بلکہ مالکان کو کہا کہ کام میں تخفیف کردو! جب ملازم جو کہ پابند ہے اور اس کی شرعی ذمہ داری ہے کہ اس نے جو وقت دیا ہے وہ پورا دے اس کے بارےمیں اللہ کے نبی ﷺچاہ رہے ہیں کہ اسے نیکیوں کا موقع ملے تو خود تاجر جو کسی کا پابند نہیں، اس کےلیے اﷲ تعالیٰ کتناچاہیں گے کہ وہ کچھ وقت اﷲ کے لیے دے! تاکہ نیکیوں کا یہ سیزن ضائع نہ ہو۔ اس لیے اس ماہ میں جتنی نیکیاں کما سکیں اتنا ہی زیادہ کوشش کریں!
ایسے تاجر بھی دیکھے ہیں جو جوتوں کا کاروبار کرتے تھے لیکن انہوں نے جوتوں کا کاروبار چھوڑ کر کتابوں کی دکان کھول لی پوچھا گیا کہ یہ کاروبار کیوں چھوڑ دیا؟ اس میں تو بڑی کمائی ہے خصوصاً رمضان میں۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ سارے رمضان کی نیکیاں اسی کمانے میں ضائع ہوجاتی تھیں۔ تراویح اور عشاء کی نماز ملی نہ ملی اور عبادت کی توفیق نہ ملتی اس لیے یہ کاروبار چھوڑ دیا۔یعنی انہوں نے ایسی کمائی پر لعنت بھیجی جو دنیا کا نفع تو کماکر دے لیکن نیکیاں ضائع کردے۔ اﷲ ہمیں بھی ایسے تاجروں میں شامل فرمائے۔ آمین
دوسری بات! اکثر دیکھا گیا ہے کہ رمضان یا رمضان کے قریب پاکستان میں مختلف حادثات وواقعات اور عذاب کی مختلف شکلیں نظر آتی ہیں۔ خصوصاً اس رمضان سے پہلے کہ جو حالات ہیں وہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ اللہ جل شانہ ہم سے ناراض ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں اﷲ کے عذاب کی مختلف شکلیں نظر آرہی ہیں ۔کہیں طیارے کا حادثہ ہے ، کہیں سیلاب اور بارشوں کی شکل میں اﷲ کے عذاب کی شکل ہے۔ کہیں مسلمان آپس میں دست و گریبان ہیں۔ قرآن کی نظر میں یہ بھی عذاب کی ایک شکل ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ جل شانہ کا ارشادہے:
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اس پر بھی وہی اللہ قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے (جیسے طوفانی بارش) یا تمہارے پاؤں تلے سے (جیسے زلزلہ،سیلاب وغیرہ) یا تم کو گروہ گروہ کرکے سب کو لڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھادے۔ (الانعام -٦٥)
اﷲ ہر عذاب سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین
ضرورت اس امر کی ہے کہ رمضان میں جو کہ معافی کا مہینہ ہے، اﷲ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لی جائے۔ جتنا زیادہ سے زیادہ ہوسکے استغفار کو معمول بنایا جائے۔ اﷲ والے ان حالات کو دیکھ کر بہت پریشان ہیں۔ خاص کر رائیونڈ والے حضرات جو امت کے لےے بہت متفکر رہتے ہیں۔ حضرت حاجی صاحب نے خاص طور پر لوگوں سے تین تسبیح ”استغفار( اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ) ”کی، تین تسبیح ” آیت ِکریمہ(لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ)” کی اور پانچ تسبیح ”لاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ” کی پڑھنے کو کہا ہے تاکہ اﷲ ہمارے استغفار کی برکت سے ہمارے گناہ معاف فرمائے ۔ اﷲ تعالیٰ کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے اور رمضان ہمارے لیے روحانی جسمانی اور ظاہری و باطنی خوشیاں لے کر آئے۔ اگر مسلمان اپنے گناہوں کی اﷲ سے رمضان میں معافی مانگیں گے تو اﷲ تعالیٰ اپنی رحمت سے رمضان میں جلدہی ہم سے راضی ہوجائیں گے اور ہمارے گناہ معاف فرما کر ہم سے عذاب کی ساری شکلیں دور فرما دیں گے اور اپنی مغرفت کا راستہ آسان فرمادیں گے۔ والسلام