رشتے کے انتخاب کا معیار

تحریر/ مفتی رشید احمد خورشید
جب بھی دنیا میں کوئی بچہ آتاہے تو وہ اپنا ایک خاندانی پس منظر رکھتا ہے۔ اس کے والد کا تعلق کس پیشے سے ہے۔ ددھیال کے لوگ کیسے ہیں؟ ننھیالی رشتہ دار کس شعبہ زندگی سے وابستگی رکھتے ہیں؟کس ماحول کے اندر وہ پروان چڑھے ہیں؟ عموما یہ پس منظر ہر انسان کادوسرے سے مختلف ہوتاہے اور اس کا اثر ہر انسان کی ذاتی زندگی پر ہونا ایک فطری اور بدیہی امر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ إلَّا یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ أَو یُنَصِّرَانِہٖ أَو یُمَجِّسَانِہٖ۔۔۔۔۔۔” یعنی”ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین یا اس کو یہودی بنادیتے ہیں، یا عیسائی بنادیتے ہیں یا مجوسی بناتے ہیں۔”(بخاری ومسلم) اس حدیث سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ گھریلو اور خاندانی ماحول کا انسان کی زندگی پر بہت گہرا اور دیر پا اثر ہوتا ہے۔ جب ہم بیٹے یا بیٹی کے لیے رشتے کا انتخاب کرتے ہیں تواس وقت ہمیں بہت سی دیگر چیزوں اور ترجیحات کے ساتھ اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ جس گھر میں ہم رشتہ دے رہے ہیں یا لے رہے ہیں ان کا خاندانی پس منظر اور اس لڑکے یا لڑکی کی تربیت اور نشو ونما کس قسم کے ماحول میں ہوئی ہے؟
ساس جب اپنے لیے بہو تلاش کررہی ہو تو اس کو یہ اسی وقت سوچ لینا چاہیے کہ میں گھر میں کس قسم کی بہو کے ساتھ رہ سکتی ہوں؟ میرے مزاج کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے ایک لڑکی میں کن بنیادی صفات کا ہونا ضروری ہے؟ ان ساری چیزوں کو اچھی سوچ کر، سمجھ کر اور غور وفکر کرکے اس کے بعد تلاش کا عمل شروع کیاجائے۔ اگر پہلے سے یہ بات طے کرلی جائے اور پھرتلاش کے عمل کے دوران ان چیزوں کو پیش نظر رکھاجائے تو بعد میں مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ بنیادی غلطی ہماری عورتیں یہاں کرتی ہیں کہ ابتدا میں لڑکے کی بہنیں اور والدہ کی نظر صرف اور صرف ایک بات پر ہوتی ہے اور وہ ہے”خوبصورتی”۔ ان کا مطمح نظر صرف یہی ایک چیزہوتی ہے اور اسی کو معیار بناکر کسی رشتے کا انتخاب یا اس کو مسترد کرتی ہیں۔ چنانچہ عموما ہم نے دیکھا اور سنا کہ بہنیں جب کسی لڑکی کو دیکھنے جاتی ہیں تو واپسی پر ان کا تبصرہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے:” اس کی تو آنکھیں ٹیڑھی ہیں۔ اس کی تو ناک اتنی بڑی ہے۔ اس کے تو ہونٹ اتنے موٹے ہیں۔ اس کے گال تو بالکل پچکے ہوئے ہیں وغیرہ” اس طرح کے تبصرے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک پسند یا ناپسند کا معیار حسن اور خوبصورتی ہے اور بس صرف وہ چیزیں جو اس کے ظاہر سے تعلق رکھتی ہیں۔اس کے اخلاق، شرافت، ادب، حیا، خدمت اور دیگر اوصاف کو نظر انداز کردیاجاتا ہے۔ اس لیے کہ اگر اس کے علاوہ کسی اور چیز کو بھی ترجیحات میں شامل کیاہوتا تو یقینا وہ بھی زیر تبصرہ آتا، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِہَا، وَلِحَسَبِہَا، وَلِجَمَالِہَا، وَلِدِینِہَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّینِ تَرِبَتْ یَدَاکَ.” (بخاری:4802، مسلم:1466) یعنی کسی عورت سے نکاح چار چیزوں کی وجہ سے کیاجاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے کہ یہ بہت مالدار خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے مانگیں گے تو جہیز بھی اچھا ملے گا اور شادی کے بعد بھی بھاری بھر کم تحفے تحائف ملتے رہیں گے۔دوسری وجہ آپ نے بیان فرمائی: اس کے حسب اور دنیاوی اسٹیٹس کی وجہ سے کہ اس کا والد تو فلاں محکمہ میں ڈائریکٹر ہے۔ بڑا آفیسر ہے۔ہمارے بیٹے کو بھی سرکاری نوکری دلوادے گا۔ لوگوں میں ہمارا بھی ایک نام ہوجائے گا کہ فلاں کا داماد ہے۔ تیسری وجہ: اس کی خوبصورتی کی وجہ سے ۔ اس چیز کو بھی ہمارے معاشرے میں اولین ترجیحات میں شامل کیا گیا ہے۔اور چوتھی وجہ آپ نے ارشاد فرمائی: اس کی دینداری کی وجہ سے۔ ا س کے بعد آپ نے فرمایا: ”پس تو دیندار عورت کے ساتھ نکاح کرکے کامیابی حاصل کر ، تیرے ہاتھ خاک آلو ہوجائیں۔” اس حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی ترجیحات میں شامل ساری چیزوں کو بیان فرمادیا اور پھر آخر میں آپ نے اپنی امت کو جو حکم دیا وہ یہ کہ بقیہ تین چیزوںکومعیار بنانے کے بجائے دینداری کو معیار بناؤ اور ساتھ ہی اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ اگر ازدواجی زندگی میں کامیابی چاہتے ہو تو دینداری کو ترجیح دو۔ ظفر کا یہ لفظ اردو میں بھی کامیابی اور کامرانی کے مفہوم میں استعمال ہوتاہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اگر والدین اپنے ذاتی مفادات کے بجائے اپنے بیٹے کے مفاد اور بہتر مستقبل کو سامنے رکھیں تووہ اس کے لیے ایسی بیوی لے کر آئیں گے جس کے ساتھ اس کی زندگی خوشگوار گذرے اور ظاہر ہے کہ وہ ایک دیندار خاتون ہی کی صفت ہوسکتی ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ ہمارے ہاںدینداری کو نماز روزے تک محدود سمجھاجاتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں۔ شرافت، انسانیت، اچھے اخلاق، خدمت کا جذبہ، شوہر کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، غریبوں کی مدد کرنا، سارے معاملات کو دین کے مطابق بروئے کار لانا یہ دینداری ہے۔ اس چیز کو اگر دیکھاجائے گا تو قوی امید اس بات کی ہے کہ یہ زندگی کا سفر کامیاب رہے گا اور کیوں کر نہ ہو کہ حضور نے اس کو کامیابی کا مژدہ سنایا ہے۔
اس کے برعکس اگر دیگر چیزوں کو معیار بنالیاجائے گا تو پھر نتائج کچھ زیادہ اچھے نہیں ہوں گے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد ہے:”مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً لِعِزِّہَا لَمْ یَزِدْہُ اللَّہُ إِلَّا ذُلًّا ، وَمَنْ تَزَوَّجَہَا لِمَالِہَا لَمْ یَزِدْہُ اللَّہُ إِلَّا فَقْرًا ، وَمَنْ تَزَوَّجَہَا لِحَسَبِہَا لَمْ یَزِدْہُ اللَّہُ إِلَّا دَنَاءَ ۃً، وَمَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً لَمْ یَتَزَوَّجْہَا إِلَّا لِیَغُضَّ بَصَرَہُ أَوْ لِیُحْصِنَ فَرْجَہُ ، أَوْ یَصِلَ رَحِمَہُ بَارَکَ اللَّہُ لَہُ فِیہَا ، وَبَارَکَ لَہَا فِیہِ. (المعجم الاوسط للطبرانی:2342)
”جس نے کسی عورت سے اس کی عزت کی وجہ سے شادی کی، اللہ اس کی ذلت کو بڑھادیں گے اور جس نے اس کی مالداری کی وجہ سے شادی کی، اللہ اس کے فقر میں اضافہ کردیں گے اور جس نے کسی عورت سے اس کے اسٹیٹس اور حسب کی وجہ سے نکاح کیا، اللہ اس کا سر نیچا کردیں گے اور جس نے اپنی نظروں اور شرمگاہ کی حفاظت کے لیے اور صلہ رحمی کے لیے نکاح کیا، اللہ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ برکت والی زندگی عطا فرمادیں گے۔” اس حدیث کو اگر چہ محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن بہرحال تجربہ اور مشاہدہ بھی یہی بتاتا ہے۔ جو ان دنیاوی چیزوں کی وجہ سے کسی عورت سے شادی کرتا ہے تو پھر وہ اس کا غلام بن کر رہ جاتا ہے اور دنیا میں کوئی اچھا مقام حاصل کرنے میںکم ہی کامیاب ہوتا ہے۔
ایک طرف تو والدین کو ان باتوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ دوسری طرف ہمارے بہت سے نوجوان دوست باربار یہ سوال کرتے ہیں کہ ”لوومیرج” کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟ اس پر میںیہی سوال کیاکرتا ہوںکہ آپ کی محبت کا سبب اور وجہ کیا ہے؟ آپ میرے ساتھ اس بات میں اتفاق کریں گے کہ ننانوے فیصد کسی نوجوان کی ذاتی دلچسپی کی وجہ اس لڑکی کی خوبصورتی، حسن یا ظاہری چیزیں ہوتی ہیں ، نہ کہ دینداری، خاندانی شرافت اور حسن اخلاق۔ ایسی صورتحال میں پھر یہی وجہ بنتی ہے کہ یہ شادی عموما ناکام ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ دنیا کی یہ ساری چیزیں تو زوال پذیر ہیں۔ حسن تو چند دنوں کی بات ہے۔ حسین سے حسین انسان کا چہزرہ بھی ایک وقت آتا ہے کہ جھرجھریاں پڑجاتی ہیں یا کبھی کسی حادثے کا شکار ہوجاتا ہے یا کوئی مسئلہ پیش آجاتا ہے۔ مالدار غریب ہوجاتے ہیں۔ بڑے نیچے آجاتے ہیں تو پھر دلچسپی کا سبب برقرار نہیں رہتا تو وہ رشتہ بھی ڈگمگانے لگ جاتا ہے۔ اسی لیے رشتے کے انتخاب میں والدین کو بھی اور خود نوجوانوں کو بھی یہ بات سامنے رکھنی چاہیے۔ چند دن کے جوش میں آکر اپنی ساری زندگی تباہ کرنے سے بہتر ہے کہ کچھ دن کے ہوش سے اپنی زندگی کو خوشحال بنادیں۔

 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں