روزگار کی وجہ سے بیٹے کے نکاح میں تاخیر کرنا

سوال:اگر کوئی ماں اپنے بیٹے کی شادی جس کی عمر تقریبا 22 سال ہوچکی ہے اس ڈر سے نہ کروارہی ہو کہ وہ کم کماتا ہے۔

کیا ماں کا ڈرنا جائز ہے اور کیا اگر وہ شادی نہ کروارہی ہواس کا ماں کو کوئی گناہ ملے گا؟

اور اسلام میں اگر 22 سال کا لڑکا بالغ ہو اور اپنے لیے تھوڑا بہت اچھا کمالیتا ہو تو کیا اسے شادی کرلینی چاہیے یا اس ڈر سے کہ پہلے نوکری پکی ہوجائے اس وقت تک رکا رہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

تمام انس و جن کے رزق کی ذمہ داری اللہ تعالی نے اپنے ذمہ لی ہے چنانچہ اللہ تعالی سورہ ہود میں فرماتے ہیں:

ومامن دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا۔(سورہ ہود:6)

ترجمہ:ہر جاندار کے رزق کی زمہ داری اللہ پر ہے۔

اور نکاح کی برکت سے تو اللّٰہ تعالی رزق میں مزید برکتیں عطا فرماتے ہیں جیسا کہ سورہ نور میں ارشاد ہے:

ان یکونوا فقراء یغنھم اللّٰہ من فضلہ۔

ترجمہ: اگر وہ محتاج ہوں تو (نکاح کی برکت سے) اللہ تعالی انہیں غنی کردیں گے۔

(سورہ نور:32)

لہذا والدین کو اس بات سے بالکل نہیں ڈرنا چاہیے کہ بچہ کا نکاح کردیا تو بیوی کا خرچ کیسے اٹھائے گا ؛بلکہ بچہ جب بالغ ہوجائے تو جلد سے جلد اس کے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ کر اس کا نکاح کرنے کی فکر اور کوشش کرنی چاہیے جو کہ ان کی اولین ذمہ داری ہے؛بلکہ اگر قرائن سے اندازہ ہو کہ شادی نہ کرنے کی صورت میں بیٹے کا گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے نیز بیٹا بیوی کا نفقہ بھی ادا کرسکتا ہے اور پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا۔

البتہ برابری کا رشتہ میسر آنے تک یا بیوی کا نفقہ دینے کی استطاعت نہ ہو تو اس صورت میں نکاح میں تاخیر کی جاسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1 ۔حدیث شریف میں ہے:

” وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه»”۔

(مشكاة المصابيح (2/ 939)

ترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔

2۔”وعن عمر بن الخطاب وأنس بن مالك رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنةً ولم يزوّجها فأصابت إثماً فإثم ذلك عليه. رواهما البيهقي في شعب الإيمان”۔

(مشكاة المصابيح (2/ 939)

ترجمہ: تورات میں درج ہے کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہوجائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے، پھر لڑکی سے کوئی گناہ ہوجائے تو باپ بھی گناہ گار ہوگا۔

3۔” عن عبد الرحمن بن يزيد، قال: دخلت مع علقمة والاسود على عبد الله، فقال عبد الله: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم شبابا لا نجد شيئا، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم:” يا معشر الشباب، من استطاع الباءة فليتزوج، فإنه اغض للبصر، واحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء”.

ترجمہ: عبدالرحمٰن بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ میں علقمہ اور اسود (رحمہم اللہ) کے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ہم سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ نوجوانوں کی جماعت! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لیے طاقت ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی بوجہ غربت طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا۔

( بخاری شریف کتاب:3/ 422)

4۔ ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : فإن خطبہا الکف ء لا یؤخرہا وہو کل مسلم تقي ۔

(کتاب النکاح:4/ 67)

فقط۔ واللہ اعلم بالصواب

۱۳جمادی الثانی ۱۴۴۳ھ

17 جنوری 2022

اپنا تبصرہ بھیجیں