رخصت کی حالت میں متبادل استاد رکھنا اور حسبِ منشاء تنخواہ دینا

﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۹۴﴾

سوال:-      السلام علیکم استاد صاحب ایک مسئلہ ہے میں مدرسہ لگنے سے پہلے گورنمنٹ اسکول میں جاب کرتی تھی اسی سکول میں میں نے پڑھا بھی ہے تو ایک ٹیچر بیمار تھی وہ آنہیں سکتی تھی تو ان کے بدلہ مجھے رکھا تھا پڑھانے کے لیے ۔مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ سیلری ان کو ملتی ہے گھر بیٹھے اس میں سے مجھے وہ تین ہزار دیتے تھے تو یہ حرام ہوئے نا استاد صاحب؟

جواب:-         سرکاری اسکولوں میں اکثر ایسی رخصتیں ہوتی ہیں جس میں استادوں کو تنخواہ ملتی رہتی ہے، لہٰذا اگر استانی نے اسکول سے رخصت لی ہو اور چھٹی منظور ہونے کے باوجود انہوں نے بچوں کے اسباق کے حرج کی وجہ سے آپ کو اپنی جگہ رکھا  ہوتو یہ صورت جائز ہےاور آپ کے لیے بھی اس پر ان سے تنخواہ لینا جائز ہے۔

البتہ اگر انہوں نے حقیقت چھپاکراور رخصت لیے بغیر عملے سے ملی بھگت کرکے آپ کو اپنی جگہ پڑھانے کے لیے رکھا ہو تو اس صورت میں ان کا تنخواہ لینا جائز نہیں  تھا کیونکہ شرعی لحاظ سے وہ اجیر خاص تھیں اور ان پر اپنے فرائض منصبی کی خود ادائیگی  شرعاً و قانوناً لازم تھی۔ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر آپ کو اپنی جگہ رکھنا ناجائز تھا۔ اور آپ کا بھی ایسا کرنا جائز نہیں،  تاہم آپ اپنی محنت  کی طے شدہ اجرت ان سے لے سکتی ہیں۔لیکن ساتھ ساتھ آپ پر توبہ و استغفار بھی لازم ہے ۔نیز آئندہ اس سے مکمل اجتناب کریں۔

(شرح المجلۃ لسلیم رستم,1/239,مکتبہ حنفیہ کوئٹہ)

الأجیر الخاص یستحق الأجرۃ اذا کان فی مدۃ الاجارۃ حاضراً للعمل,ولایشترط عملہ بالفعل, غیر أنہ یشترط أن یتمکن من العمل, فلو سلّم نفسہ ولم یتمکن منہ لعذر کالمطر والمرض, فلا أجر لہ”

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع – (6 / 27)

 أن الوكيل يتصرف بولاية مستفادة من قبل الموكل، فيلي من التصرف قدر ما ولاه،

 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (2 / 269)

 الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں