رخصتی کے فورا بعد حالتِ حیض میں طلاق

سوال: میرا نکاح رخصتی سے تین ماہ قبل ہوگیا تھا، عین رخصتی والے دن مجھے حیض شروع ہوگیا۔ رخصتی کے صرف چار دن بعد ذرا سی بات پر ساس نے اتنی بات بڑھا دی کہ میرے شوہر نے مجھے مارا اور مجھے یہ کہہ کر ایک طلاق دے دی کہ تم میری ماں سے زیادہ اہم نہیں ہو۔
میں نے اپنے والد کو فون کرکے بلایا اور والد مجھے اپنے ساتھ لے آئے۔ دو ہفتے ہوگئے ہیں میں میکے میں ہی ہوں اور اب شوہر مجھے واپس بلا رہے ہیں کہ میں طلاق سے رجوع کررہا ہوں۔ کیا اس طرح صرف فون پر کہہ دینے سے رجوع ہوجائے گا؟

تنقیح 1: کیا رخصتی اور نکاح کے درمیان تین ماہ میں آپ کے اور شوہر کے درمیان تنہائی ہوئی تھی؟
جواب تنقیح: جی نہیں۔ البتہ کبھی کبھار موبائل پر تھوڑی بہت بات چیت ہوئی تھی۔

تنقیح 2: جب آپ والد صاحب کے ہمراہ گئیں تو اس وقت حیض جاری تھا؟
جواب تنقیح: جی ہاں! میری حیض کی عادت عموماً سات دن ہے۔

تنقیح 3: کیا شوہر نے ہمبستری کی تھی؟
جواب تنقیح: جی نہیں، حیض کی وجہ سے شوہر نے ہمبستری نہیں کی تھی۔

الجواب باسم ملھم الصواب

صورت مسئولہ میں آپ پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوچکی ہے اور آپ ان صاحب کے نکاح سے آزاد ہوچکی ہیں۔ لہذا وہ یک طرفہ طور پر رجوع نہیں کرسکتے، اس سے آپ دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح قائم نہیں ہوگا۔ البتہ اگر آپ دوبارہ ان سے نکاح کرنا چاہتی ہیں اپنی خوشدلی سے تو اس صورت میں نئے مہر پر دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرکے دوبارہ نکاح کرسکتی ہیں۔ البتہ آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
=======================
حوالہ جات:

1۔ وعن ابی یوسف رحمہ اللہ تعالی فی رجل لَہٗ إمراتان لم یدخل بواحدة منھما فَقَال: إمراتی طالق امرأتی طالق ثم قَالَ: أردتُ واحدة منھما لا أصدقہ وأبینھما منہ.
(الفتاوی الھندیة: 390/1)

2۔ وأما الصریح البائن فبخلافہ، وھو أن یکون بحروف الإبانة أو بحروف الطلاق، لکن قبل الدخول حقیقیة أو بعدہ… إذا عرف ھذا فصریح الطلاق قبل الدخول حقیقة یکون بائنا. لأن الاصل فی اللفظالمطلق عن شرط أن یفید الحکم فیما وضع لَہٗ للحال، والتأخر فیما بعد الدخول إلی وقت إنقضاء العدة ثبت شرعا، بخلاف الأصل، فیقتصر علی مورد الشرع، فبقی الحکم فیما قبل الدخول علی الأصل ولو خلا بھا خلوة صحیحة، ثم طلقھا صریح الطلاق، وقال: لم أجامعھا_ کان۔ طلاقا بائنا، حتی لا یملک مراجعتھا، وإن کان للخلوة حکم الدخول؛ لأنھا لیست بدخول حقیقة، فکان ھذا طلاقا قبل الدخول حقیقة؛ فکان بائنا.
(البدائع الصنائع: 240-4/241)

3۔ وإذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فلہ أن یتزوجہا فی العدة و بعد انقضائھا.
(الھدایة: 409/2)

4۔ طلاق قبل الدخول (خواہ بعد خلوة صحیحہ ہو) بائنہ واقع ہوتی ہے۔
(امداد الاحکام: 414/2)

5۔ طلاق بائن کا حکم یہ ہے کہ بیوی فورا نکاح سے نکل جاتی ہےاور شوہر کو رجوع کا حق نہیں رہتا، البتہ عدت کے اندر بھی اور عدت ختم ہونے کے بعد بھی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل : 453/6)

واللہ اعلم بالصواب

4 جمادی الثانی1444ھ
28 دسمبر 2022ء

اپنا تبصرہ بھیجیں