اسکول کے ٹیچرز کا اسکول کے وقت مقرر میں نماز ادا کرنا

  • سوال :میں سیکنڈری اسکول کی ہیڈ مسٹریس ہووں کبھی کسی ٹیچر کو بلاؤ تو معلوم ہوتاہےکہ نماز پڑھ رہی ہیںایک صاحبہ نے تو آخری پیریڈ میں نماز پڑھنے کے لیئے, دیا گیا کام اپنا پیریڈ چھوڑ کر کیااس کے بعد میں نے تحریری نوٹس دے دیا کہ کوئی اسکول میں نماز نہ پڑھے وقت دیر تک رہتا ھے گھر جا کے پڑھیںسب نے اس نوٹس پر دستخط تو کر دیئے مگر نماز پڑھتی رھیں۔جب میں نے دیکھا اور دوبارہ زبانی منع کیاتو 2 ٹیچرز نےانتہائی بدتمیزی سے صاف کہہ دیا کہ ہم  تو اسکول میں ہی پڑھیں گےھمارا فری پیریڈ ھےان کا یہ طرز عمل کیسا ھے؟میرا کہنا ہے کہ پیریڈ چاہے فری ہو مگر یہ وقت توآپ کی ڈیوٹی کابھی ہےاگر نماز قضا ہونے کا اندیشہ ہوتا تو میں منع نہیں کرتیں کیا اس طرح منع کرکے میں غلط کر رہی ہوں؟گناہ کا کام کررہی ہوں؟جب کے طالبات کی ذمہ داری اور اسکول کاانتظام میری ذمہ داری ہے؟
  • الجواب باسم ملھم الصواب

    واضح رہے کہ جو شخص کسی اسکول یا ادارہ میں ملازمت کرتا ہے تو وہ اجیر خاص کہلاتا ہے اور اجیر خاص پر اس ادارے کے ہر جائز قانون کی پاسداری ضروری ہے۔

    مذکورہ صورت میں اگر نماز کا وقت معلمات کے گھر پہنچنے تک باقی رہتا ہے اور جو معلمہ گھر سے دیر سے پہنچتی ہوں ان کی بھی نماز فوت ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا تو اس صورت میں اتفاق اور محبت پیدا کرنے کے لیے ٹیچرز کو چاہیے کہ گھر جاکر نماز پڑھیں؛کیونکہ اس صورت میں ٹیچرز کے لیے اسکول کی ذمہ داریوں کو پورا کرنا بھی ممکن ہے اور اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم بھی نہیں ٹوٹ رہا۔ البتہ اگر اسکول میں نہ پڑھنے کی صورت میں نماز فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر چونکہ ملازم کو فرض نماز اور سنت مؤکدہ ملازمت کے اوقات میں بھی پڑھنے کی اجازت ہے، اس لیے اس صورت میں آپ کا نماز پڑھنے سے روکنے کا رویہ خلافِ شریعت ہوگا، جس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

    بہرحال اگر کوٸی استاد اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی ادا کرنے کے بعد نماز کے وقت میں نماز ادا کرتا ہے تو انتظامیہ کو چاہیے کہ اس پر سختی اور باز پرس نہ کرے، کیونکہ ملازمت کے وقت میں طبعی ضروریات جیسے قضائے حاجت وغیرہ اور شرعی ضرورت جیسے فرض اور سنت مؤکدہ کا وقت شامل نہیں ہوتا ہے ۔ تاہم نوافل پڑھنا درست نہیں۔

  • ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    حوالہ جات

  • ١ ۔۔۔وعن النواس بن سمعان قال قال رسول اللہﷺ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق رواہ فی شرح السنۃ۔ (مشکواۃ المصابیح ص۳۲۱۔ جلد۱ کتاب الامارۃ والقضاء الفصل الثانی)
  • ٢ ۔۔۔۔وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.

    (قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى.” ( وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :رد المحتار6/ 70)

  • فقط واللہ اعلم بالصواب
  • 23دسمبر 2021

    19جمادی الاولی1443

اپنا تبصرہ بھیجیں