صحت کی بیمہ پالیسی لینا

سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته!

1۔باہر ممالک میں رہنے والے لوگ صحت کی انشورنس کرواتے ہیں ان کے پاس علاج کے لیے اتنے پیسے نہیں ہوتے ہیں کہ وہ انشورنس کے بغیر رہ سکے ان حالات میں کیا کرنا چاہیے۔
2۔پاکستان میں رہنے والے کیا اپنی صحت کی بیمہ پالیسی لے سکتے ہیں ۔

الجواب باسم ملہم الصواب
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته!

1۔مروجہ انشورنس کمپنیاں غرر ،قمار اور سود پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اس لیے علاج مہنگا ہونے کے باوجود یہ پالیسی خریدنا جائز نہیں ہے۔ البتہ جن ممالک میں صحت کی انشورنس قانوناً لازم ہے ایسے ممالک میں انشورنس پالیسی لینے والا شخص ان شاء اللہ گنہگار نہیں ہو گا۔ البتہ اس صورت میں صرف اصل رقم ( پریمیم )سے فائدہ اُٹھانا جائز ہو گا۔ اس سے زائد رقم سے علاج کرانا جائز نہ ہوگا۔البتہ جن ممالک میں انشورنس کا متبادل تکافل کا طریقہ موجود ہو اور باقاعدہ مستند مفتیان کرام کی نگرانی ميں کام کررہا ہو اور آپ کو ان مفتیان کرام پر اعتماد ہوتو پھر ترجیح تکافل کے طریقے کو دی جائے۔
جب تک یہ ادارہ معتبر علماء کرام کی زیر نگرانی کام کرتا رہے، اس وقت تک اس کے ذریعے تکافل کی کوئی پالیسی مثلا: ہیلتھ کارڈ (Health card) وغیرہ لینے کی گنجائش ہوگی۔
2-پاکستان میں تو انشورنس کا متبادل تکافل کی شکل میں موجود ہے،لہذا پاکستان کے رہائشی مذکورہ بالا تفصیل کو مد نظر رکھتے ہوئے تکافل پالیسی لے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1۔”‌القمار ‌من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص۔“
(ردالمحتار ،كتاب الحظر والاباحة، باب البيع، ج:6، ص: 403، ط: سعيد)
2۔”عن أبي هريرة، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الحصاة، وعن بيع الغرر۔“
(صحیح مسلم ،كتاب البيوع، باب بطلان بيع الحصاة والبيع الذي فيه غرر، ج:3، ص: 1153، رقم: 1513، )
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر پھینک کر بیع کرنے اور دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے۔

3۔والملک الخبیث سبیلہ التصدق به ولو صرفه فى حاجة نفسه جاز ، ثم ان کان غنيا تصدق بمثله،و ان کان فقیرا لا یتصدق۔
(الاختیار لتعلیل المختار ج3, ص61،اوائل کتاب الغضب)

فقط
واللہ اعلم بالصواب
21 جمادی الثانی 1445
3 جنوری 2024ء

اپنا تبصرہ بھیجیں