شادیوں کے مختلف پروگرام اور بلا معاوضہ زینت کی خدمات لینا

سوال: آج کل جو شادی کی تقریب سے ایک ہفتہ پہلے سے ہی مختلف قسم کے پروگرامز شروع ہونے کا رواج عام ہو گیا ہے اس کے متعلق رہنمائی فرما دیں۔ اور ان میں جو گھر والے میزبان مہندی لگوانے یا کوئی اور کام کے لیے کاریگر بلاتے ہیں فیشیل ، مینیکیور پیڈی کیور کے لیے بلاتے ہیں ان کی اجرت بھی میزبان کے ذمہ ہے جب کہ انہوں نے پہلے ہی سے سب مہمانوں کو بتلا دیا ہوتا ہے کہ آپ کی آسانی کے لیے گھر بلوا لیا ہے مگر ہر کوئی اپنی سروس کی قیمت خود ادا کرے ۔اب بعض مہمان مہندی وغیرہ لگوا تو لیتے ہیں مگر پیسے نہیں بھرتے ۔ اب کاریگر کیا کرے۔ میزبان نے تو پہلے ہی منع کر دیا ہوتا ہے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

1: واضح رہے کہ اسلام میں شرعی حدود میں رہتے ہوئے صرف ولیمہ کا ثبوت ہے، دیگر رسومات مایوں، مہندی، بارات وغیرہ کا ثبوت نہیں ان سے اجتناب لازم ہے۔
2: جب میز بان نے واضح طور پر بتادیا کہ ہر شخص اپنے کام کی اجرت دے تو ہر شخص پر اپنے کام کی اجرت خود ہی دینا لازم ہے۔ میزبان کو تکلیف دینا اور اس پر مالی بوجھ ڈالنا شرعا ناجائز ہے۔ کاریگر کو چاہئے کہ وہ کسی کا بھی کام کرنے سے پہلے واضح کردے کہ اسے فیس خود دینی ہے میزبان نہیں دے گا، اگر وہ اس پر راضی ہے تو کاریگر کام کرے۔

============
حوالہ جات :
1: عن عائشة -رضي اﷲ عنها- أن رسول اﷲ ﷺ قال: إن أعظم النکاح برکةً أیسره مؤنةً‘‘.
(مسند أحمد بن حنبل 6/86، رقم: 25034، دارالکتب العلمیة بیروت)

2۔ وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” قال الله تعالى: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فأكل ثمنه ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره ،رواه البخاري

(مشكاة المصابيح ، كِتَابُ الْبُيُوعِ، ‌‌بَاب الْإِجَارَة،‌‌الْفَصْل الأول،2/ 899 ، ‌‌ ط: المكتب الإسلامي ، بيروت)

ترجمہ: ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں خود ان سے جھگڑوں گا؛ ایک وہ شخص ہے جس نے میرے نام کی قسم کھائی پھر وہ قسم توڑ ڈالی، دوسرا وہ آدمی ہے جس نے کسی آزاد کو پکڑ کر فروخت کردیا پھر اس کی قیمت کھا گیا، تیسرا وہ آدمی جس کو کسی نے مزدوری پر لگایا اور اس سے پورا کام لیا مگر اس کو مزدوری نہ دی۔”

3: الاختیار لتعلیل المختار:
“ولأن حرمة مال ‌المسلم ‌كحرمة ‌دمه. قال – عليه الصلاة والسلام -: «كل المسلم على المسلم حرام: دمه، وعرضه، وماله» . وقال – عليه الصلاة والسلام : لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه.”
(الاختيار لتعليل المختار، كتاب الغصب 3/ 59 ط: مطبعة الحلبي القاهرة)

واللہ تعالی اعلم بالصواب

12 اکتوبر 2022ء
16 ربیع الاول 1444ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں