شان نزول (گلدستہ قرآن پانچواں سبق )

شان نزول
قرآن کریم میں دو طرح کی آیات ہیں :ایک وہ جو بغیر کسی پس منظر کے سمجھ آجاتی ہیں ،بلکہ ان کو کسی خاص پس منظر میں محدود رکھنے سے آیت سمجھ میں بھی نہیں آتی ، زیادہ تر آیات ایسی ہی ہیں ،جبکہ کچھ حصہ قرآن کریم کا وہ ہے جن کے پیچھے ایک خاص پس منظر، یاخاص کوئی واقعہ ہے جن کو جانے بغیر بات سمجھ نہیں آتی ، ایک الجھن سی رہتی ہے،ایسے واقعات اور پس پردہ حقائق کو “شان نزول ” کہا جاتا ہے۔
شان نزول جاننے کے یہ فائدے ہوتے ہیں:
1۔بعض اوقات اس سے حکم کی حکمت معلوم ہوجاتی ہے۔جیسے:یسئلونک عن المحیض اور یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ۔ حالت حیض میں بیوی کے قریب جانا اس لیے حرام ہے کہ حیض کاخون نجس ہے ، اگر مرد اس کے قریب جائے گا توخود کونجاست سے آلودہ کرڈالے گا نیز اس سے امراض بھی جنم لے سکتے ہیں۔
2۔بعض اوقات ہم آیت کو عام سمجھتے ہیں، سبب نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت عام نہیں بلکہ خاص ہے،جیسے:لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ [آل عمران: 188]یہ آیت عام نہیں بلکہ خاص یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی اور وہی اس کا مصداق ہیں۔ اسی طرح {لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَأَحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ} [المائدة: 93] کا حکم ہر زمانے کے لیے نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے جن اہل ایمان نے شراب پی لی انہیں گناہ نہیں۔
3۔بعض اوقات ہم آیت کو خاص سمجھتے ہیں لیکن شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ حکم عام ہے ، خاص نہیں۔
4۔مبہم کی تعیین ہوجاتی ہے۔اجمال کی تفسیر ہوجاتی ہے۔إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ [البقرة: 158]اگر اس آیت کاشان نزول معلوم نہ ہو تو کوئی اس آیت سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ صفامروہ کی سعی صرف مباح عمل ہے واجب نہیں، لیکن شان نزول سے واضح ہوتا ہے کہ بعض صحابہ کرام صفامروہ کی سعی کوحرام سمجھ رہے تھے کیونکہ کسی زمانے میں یہاں بت رکھے رہتے تھے اور مشرکین ان بتوں کا یہاں طواف کرتے تھے تویہ حضرات یہ سمجھے کہ اس بت پرستی کی وجہ سے جو اس مقام پر ہوتی تھی ،سعی ہی حرام ہوگئی ہے تو اس پر اس آیت نے یہ واضح کیا کہ شرک اور بت پرستی ناجائز ہے لیکن صفامروہ کی سعی اپنی ذات میں بالکل جائز ہے، اس مقام پر بت پرستی کارواج سعی کے نفس جواز کوختم نہیں کرسکتا۔ اسی طرح آیت:وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ [الطلاق: 4]اسی طرح آیت: قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ‎ [الأنعام: 145]
ناسخ منسوخ
نسخ کے معنی مٹانے کے بھی آتے ہیں اور لکھنے کے بھی۔اصول تفسیر میں مٹانے کے معنی زیادہ موزوں ہیں۔پہلے اللہ تعالی ایک حکم دیں،بعد میں اپنی حکمتوں کے پیش نظر اسے کالعدم کرکے دوسرا حکم اس کی جگہ دیں ،اسے نسخ کہتے ہیں۔سابقہ حکم منسوخ اور نیا حکم ناسخ کہلاتا ہے۔تمام آسمانی شریعتوں میں نسخ کو امرواقع تسلیم کیا گیا ہے۔
آسمانی کتابوں میں نسخ کو عقلی بنیادوں پر سمجھنے کے لیے کچھ تفصیل کی ضرورت ہے۔دیکھیے!حکم میں تبدیلی کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
1۔غلطی سے ایک حکم جاری کیا گیا۔غلطی کا احساس ہونے پر اس کی تصحیح کردی گئی۔پارلیمنٹ ، عدلیہ،افتاء، طبی نسخہ اور انسانی تحقیقات میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ غلطی ہوئی جس کی بعد میں تصحیح کی گئی۔کلام اللہ میں نسخ کے یہ معنی قطعاً مراد نہیں ہوتے؛اس سے اللہ جل شانہ کی طرف غلطی اور سہو کی نسبت ہوتی ہے جو عقائدِ اہل سنت کے مطابق گستاخی اور کفر ہے۔
2۔جس وقت حکم جاری کیا گیا اس وقت کے مناسب وہی حکم تھا، آگے جاکر حالات بدلے تو حکم بھی بدلنا پڑا۔دنیوی احکام میں یہ صورت اکثر پیش آتی ہےلیکن اللہ تعالی کے احکام میں نسخ کی یہ صورت بھی نہیں ہوسکتی؛کیونکہ اللہ تعالی کو مستقبل میں پیش آنے والے حالات ووقائع کا پہلے سے علم ہوتا ہے،اسے پہلے سے معلوم ہے کہ کس وقت کون سے احکام بہتر رہیں گے ۔
3۔حکم میں تبدیلی کی تیسری صورت یہ ہوتی ہے کہ پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم اس وقت تک مناسب ہے، اس کے بعد دوسرا حکم دینا زیادہ مناسب ہوگا،جیسے: ماہر ڈاکٹر ایک نئے ڈاکٹر سے پہلے چھوٹے کام کرواتا ہے پھر ایک مدت گزرجاتی ہے تو دوسرے بڑے کام اس سے لیتا ہے، پھر وقت گزرتا ہے تو آپریشن کرنے کی بھی اجازت دے دیتا ہے۔ایک دم سے آپریشن تھیٹر اس کے حوالے نہیں کرتا۔یا ایک اسپشلسٹ مریض کو پہلے مہینے ایک دوائی دیتا ہے اسے پتا ہوتا ہے کہ ایک ماہ بعد دوائی بدلنی ہوگی، آئندہ مہینے وہ دوائی میں ردوبدل کردیتا ہے۔اس کا یہ تصرف اس کی جہالت یا کم عقلی نہیں بلکہ قابلیت ومہارت کی علامت ہے۔
یہی مثال اللہ تعالی کے احکام کی سمجھ لیجیے! اللہ تعالی تو حکیموں کے حکیم اور سب سے زیادہ علم والے ہیں۔وہ احکام میں جو بھی ردوبدل کرتے ہیں وہ اپنی مخلوق کے حالات کو دیکھ کر ہی کرتے ہیں جس کا اسے پہلے سے ادراک ہوتا ہے۔
رہی یہ بات کہ قرآن کریم کی کتنی آیات منسوخ ہیں؟ تو اس کاجواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی سورۂ توبہ اور سورۂ احزاب شروع میں جب نازل ہوئیں تو بہت بڑی سورتیں تھیں، ان کے بہت بڑے حصے کی تلاوت اور حکم دونوں ہی بالکل ہی منسوخ ہوچکے۔ممکن ہے ان کے علاوہ بھی کچھ آیات یاسورتیں نازل ہوکر منسوخ ہوچکی ہوں، تاہم موجودہ قرآن کریم میں متاخرین کی اصطلاح کے مطابق 20 آیات منسوخ ہیں جبکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تشریحات کے مطابق صرف پانچ آیات منسوخ ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں