شراب نوشی کرنے والے کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی حدیث کی تحقیق

سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔ 

(1) کیا ایسی کوٸی حدیث ہے کہ شراب پینے والے کی چالیس دن نماز قبول نہیں ہوتی

(2) اور اسکا اطلاق صرف شراب پر ہو گا یا جیسے بھنگ چرس والے سگریٹ افیم وغیرہ پہ بھی ہو گی؟

الجواب باسم ملھم الصواب 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

(1) جی یہ حدیث ہے اور کتب حدیث میں اس مفہوم کے ایک سے زائد احادیث موجود ہیں ۔

چنانچہ مشکوۃ شریف میں روایت ہے کہ:

“عن عبد الله بن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ” من شرب الخمر لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحا فإن تاب تاب الله عليه . فإن عاد لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحا فإن تاب تاب الله عليه فإن عاد لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحا فإن تاب تاب الله عليه فإن عاد في الرابعة لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحا فإن تاب لم يتب الله عليه وسقاه من نهر الخبال ” . (رواه الترمذي

ورواه النسائي وابن ماجه والدارمي عن عبد الله بن عمرو)

ترجمہ:

حضرت عبداللہ ابن عمرو راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص (پہلی مرتبہ ) شراب پیتا ہے (اور توبہ نہیں کرتا ) تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا ، پھر اگر وہ (خلوص دل سے ) توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے ، پھر اگر وہ (دوسری مرتبہ ) شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا اور پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے پھر اگر وہ (تیسری مرتبہ ) شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا اور پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب وہ چوتھی مرتبہ شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ (نہ صرف یہ کہ ) چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا (بلکہ ) اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ (بھی ) قبول نہیں کرتا اور (آخرت میں ) اس کو دوزخیوں کی پیپ اور لہو کی نہر سے پلائے گا ۔” (ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ ، اور دارمی نے اس روایت کو عبداللہ ابن عمرو سے نقل کیا ہے ۔ “

تاہم اس کی تشریح میں محدثین و علماء کرام نے فرمایا ہے کہ نماز کے قبول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو اس کے نماز کا ثواب نہیں ملے گا۔جبکہ پڑھ کر نماز کا فریضہ ذمہ سے ساقط ہو جائے گا۔

نیز اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ خدانخواستہ اگر کوئی شراب پیتا ہے تو وہ چالیس دن تک نماز ہی نہیں پڑھے، کیونکہ نمازکی فرضیت قطعی دلائل سے ثابت ہے اور وقت داخل ہوتے ہی ہر مسلمان کی طرف نماز کی فرضیت کا حکم متوجہ ہو جاتا ہے اور وہ نماز اس کے ذمہ ثابت ہو جاتی ہے۔

(2) ہمیں اس کا واضح حکم تو نہیں ملا ،لیکن ظاہری الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اطلاق صرف شراب پینے والے پر ہوگا،دیگر نشوں پر نہیں، لیکن حدیث کے معنی اور علت کو دیکھا جائے تو ہر حرام نشہ اس کے تحت داخل ہونے کا اندیشہ بہر حال موجود ہے۔

===================

يقول الإمام النووي رحمه الله: “وأما عدم قبول صلاته فمعناه أنه لا ثواب له فيها، وإن كانت مجزئة في سقوط الفرض عنه، ولا يحتاج معها إلى إعادة” انتهى. “شرح مسلم” (14/227)

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب 

قمری تاریخ: 12 جمادی اولی،1442ھ

شمسی تاریخ: 27 دسمبر ,2020

اپنا تبصرہ بھیجیں