شئیرز کے منافع کاحکم

سوال: السلام علیکم!

مجھے شئیرز کے متعلق پوچھنا تھا۔اگر ہم شئیرز خود سے خریدتے ہیں اس سے کمایا ہوا منافع ہم پر جائز ہوں گے؟

الجواب باسم ملھم الصواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

تہمید:شئیرز کے خرید و فروخت کے جواز اور عدم جواز کے متعلق پہلے کچھ شرائط ملاحظہ ہوں:

1) جس کمپنی کے شیئرز خریدے جارہے ہوں اس کمپنی کا کاروبار بذات خود جائز ہو ۔

2) وہ کمپنی ضمنی طور پر بھی کسی حرام کام میں ملوث نہ ہو ۔تاہم اگر ضمنی طور پر کسی ناجائز کام میں ملوث ہو تو اس ضمنی ناجائز کام سے حاصل ہونے والا منافع حلال کاروبار کے منافع سے کم ہواور حلال کمائی میں اس حرام کمائی کا تناسب 5 فیصد سے زیادہ نہ ہو۔

2) جو شئیرز خریدے ہیں اس کمپنی کے مجموعی کمائی کے تناسب میں اس کے سودی قرضوں کی مقدار 33 فیصد سے کم ہو۔

3) یہ بھی ضروری ہے کہ جس کمپنی کے شئیرز خریدے جا رہے ہیں وہ کمپنی واقعی میں شروع ہو چکی ہو صرف منصوبہ بندی اور نقد رقم کے مرحلے میں نہ ہو۔اگر کمپنی کے تمام اساسے نقود اور قرضوں کی صورت میں ہو تو اس کمپنی کی شئیرز کی خرید و فروخت صرف قیمت اسمیہ(فیس ویلیو) پر جائز ہے۔کم و بیش میں بیچنا،خریدنا جائز نہیں۔

4)نفع و نقصان دونوں میں شرکت ہو۔

5) نفع فیصد کے اعتبار سے طے ہو ،ماہانہ یا سالانہ یقینی نفع مقرر ہونے کی صورت میں سود لازم آئے گا۔

6) سودی بینکوں،شراب بنانے والی کمپنیوں،بنیادی طور پر سود کا کام کرنے والی کمپنیوں اور مروجہ انشورنس کمپنیوں کے شئیرز خریدنا جائز نہیں۔

7) شئیر کی خرید و فروخت میں یہ بھی ضروری ہے کہ شئیرز ہولڈر ،اپنے شئیرز پر قبضہ بھی کرے ۔قبضہ سے پہلے اس کو بیچنا جائز نہیں۔

8) جو شئیرز خریدا جا رہا ہے ،اس کے پیچھے موجود نقد اساسوں کی مقدر اس کی بازاری قیمت سے کم ہو۔

اب جواب ملاحظہ ہو:

(1) جس کمپنی کے آپ نے شیئرز خریدے ہیں اس کا کاروبار اگر جائز اور حلال ہے اور مذکورہ بالا شرائط بھی پوری ہو رہی ہیں تو اس سے ملنے والا منافع بھی جائز اور حلال ہوگا۔

(2) اگر اس کمپنی کی اکثر آمدنی حلال ہے، لیکن کچھ آمدنی حرام بھی ہے جس کا تناسب 33٪ سے کم ہے تو ایسی صورت میں ملنے والے منافع میں سے حرام کمائی کے بقدر حصہ بلا نیت ثواب کے صدقہ کرنا واجب ہوگا۔

(3) اگر کسی ایسی کمپنی کے شئیرز خریدے گئے ہیں جس کا ابھی وجود ہی نہیں ہے۔ یا اس کے کل اثاثے نقد ہی ہے تو شئیرز کو جس قیمت پر خریدا ہے اسی قیمت (فیس ویلیو) پر بیچنا لازم ہوگا۔اگر فیس ویلیو سے زیادہ قیمت پر شئیرز بیچ کر نفع حاصل کیا گیا ہے تو یہ نفع سود اور ناجائز ہے۔اس نفع کو بلا نیت ثواب کے صدقہ کرنا لازم ہوگا۔

(مستفاد:دارالافتاء دار العلوم کراچی،فتوی نمبر:2/1029,

دار الافتاء الاخلاص کراچی،فتوی نمبر :5944)

=================

=

حوالہ جات

1.وفی الصحیح لمسلم:

عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء.

(ج2، ص227)

2.وفی عمدۃ القاری:

“الغرر ھو فی الاصل الخطر، و الخطر ھو الذی لا یدری أ یکون ام لا، و قال ان عرفۃ: الغرر ھو ما کان ظاھرہ یغر و باطنہ مجہول، قال و الغرور ما رأیت لہ ظاہرا تحبہ و باطنہ مکروہ أو مجہول، و قال الأزہری: البیع الغرر ما یکون علی غیر عھدۃ و لا ثقۃ، و قال صاحب المشارق: بیع الغرر بیع المخاطرۃ، و ھو الجہل بالثمن أو المثمن أو سلامتہ أو أجلہ”.

(ج8، ص 435)

3.وفی المصنف لابن أبی شیبۃ:

عن ابن سیرین قال: “کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر”.

(ج4، ص483، کتاب البیوع والاقضیہ، ط؛ مکتبہ رشد، ریاض)

4.وفی الشامیۃ:

(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص”.

(ج6، ص403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط : سعید)

5.وفی الھندیۃ:

“أما شركة العنان فهي أن يشترك اثنان في نوع من التجارات بر أو طعام أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة خاصة، كذا في فتح القدير، وصورتها أن يشترك اثنان في نوع خاص من التجارات أو يشتركان في عموم التجارات”.

(ج: 2، ص: 319، ط: دار الفکر)

6.وفیہ ایضاً:

“كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضيعته عليه”.

(ج: 2، ص: 320، ط: دار الفکر)

7.وفی الھدایۃ:

فصل: “ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه”

لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك.

(ج: 3، ص: 59، ط: دار احیاء التراث العربی)

8.وفی الفتاویٰ الہندیۃ:

“ومن استقرض من آخر ألفًا علي أن یعطي المقرض کل شہر عشرۃ دراہم، وقبض الألف وربح فیہا طاب لہ الربح”.

(الفتاویٰ الہندیۃ، البیوع / الباب العشرون في المبیعات المکروہۃ ۳؍۲۱۱)

9.(تفصيل الكلام في مسألة الإعانة على الحرام:1/48)

“أن الإعانة على المعصية حرامٌ مطلقاً بنصِّ القرآن أعني قوله تعالى: { وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْأِثْمِ وَالْعُدْوَانِ } ، وقوله تعالى { فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيراً لِلْمُجْرِمِينَ } ،

ولكن الإعانة حقيقة هي ما قامت المعصية بعين فعل المعين، ولا يتحقق إلا بنيّة الإعانة، أو التصريح بها، أو تعينها في استعمال هذا الشيء، بحيث لا يحتمل غير المعصية، وما لم تقم المعصية بعينه لم يكن من الإعانة حقيقة، بل من التسبب، ومَن أطلق عليه لفظ الإعانة فقد تَجَوَّزَ؛ لكونه صورة إعانة”

فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب

قمری تاریخ:8صفر،1443ھ

شمسی تاریخ:16 ستمبر،2021

اپنا تبصرہ بھیجیں