شاتم رسول ﷺ کی سزا کا حکم

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:134

 السلام علیکم  !

  مفتی صاحب آپ سے شاتم رسول کی  شرعی سزا کے  بارے یں  علمائے احناف کا موقف  دریافت کرنا  ہے کہ آیا شاتم رسول کو بلا کسی  تفریق سزائے موت  دی جائے گی  یا پھر اس پر حاکم  وقت  کے حکم پر حد جاری  ہوگی خاص کر جب شاتم ذمی ہو اور بالفرض  کسی اسلامی ملک میں جزیہ دیتا ہو۔ اور اگر شاتم  توبہ کرلے تو اس بارے میں احناف  اور دیوبند کا  کیافتویٰ ہے ؟

میں نےسناہے کہ احناف کی  کتب میں ہے کہ توبہ قبول کی جائے گی  اور حد جاری ہوگی۔ اور میں  نے ایک معتبر عالم  دین سے سنا کہ علامہ ابن تیمیہ  کے دور میں احناف  کا بھی اجماع  اس بات پر ہوگیا  کہ شاتم  کی توبہ قبول  نہیں اور اس کو ہر حال میں  بلا تفریق  سزا دی جائے گی ۔ جبکہ ایک اور اہل  علم  کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا بلکہ   کفایت المفتی  سے کر  کفار ملحدین  تک میں درج ہے  کہ حد جاری ہوگی اور اگر  توبہ  کرے تو قبول  ۔

 برائے مہربانی  جتنا جلد ہوسکے  رہنمائی  فرمائیں ۔

 الجواب باسم ملہم الصواب

 شاتم رسول  علیہ السلام  اگر مسلمان  ہوتو باتفاق فقہاء کرام رحمہم اللہ  تعالیٰ شتم  کی بناء پر  وہ مرتد  ہوجائے گا ، اگر توبہ    نہ کی  تو بالجماع  اس کا قتل واجب  ہے، اگر سچی توبہ  کرلے تو عدالت  کے لیے اس کی توبہ قبول  کرنے کے بارے میں فقہاء کرام رحمہم اللہ کا اختلاف  ہے، حنفیہ کا راجح مسلک یہ ہے کہ ا س کی توبہ قبول کی جائے گی ، چنانچہ اس کو علامہ شامی ؒ نے  رد المختار  ، تنقیح  الحامدیہ  اور اس موضوع  پر اپنے رسالہ   ” تنبیہ الولاۃ والحکام  علیٰ احکام شاتم خیر الانام ” میں مبسوط  بحث  کرکے  النتف ، معین  الحکام  ، کتاب الخراج  للامام  ابی یوسف  ؒ  شرح الحموی علی الاشباہ   والنظائر  ، شرح الطحطاوی  ، حاوی  للزاہدی  ، شرح  الشفاء للقاضی   عیاض  ؒ السیف  المسلول اورا لصارم   المسلول کے حوالے  سے ثابت کیاہے،  البتہ علامہ بزازی ؒ  نے حنفیہ کا مذہب  عدم قبول  توبہ ذکر کیاہے  اور لکھاہے کہ اس کو حدا قتل  کیاجائے گا  علامہ  ابن الھمام اور صاحب خلاصۃ الفتاوی اور علامہ  خیر الدین   رملی حنفی  اور صاحب  بحر رحمہم اللہ تعالیٰ اور کچھ دوسرے  حضرات  نے اس مسئلہ  میں علامہ بزازی ؒ  کی  پیروی  کی ہے، لیکن علامہ شامی ؒ  نے اس پر  مبسوط  بحث  کرتے ہوئے  یہ  ثابت کیاہے کہ یہ حنفیہ کا مسلک نہیں ہے اور علامہ بزازیؒ نے یہ مذہب  الصارم  المسلول  سے نقل کیاہے  ، جومالکیہ اور حنابلہ کا مسلک ہے ۔

 اگر شاتم  ذمی ہو تو حںفیہ  کے نزدیک اس کے شتم   کے شرعی  طریقے سے  ثابت ہونے  پر حاکم یا عدالت  کی ذمہ داری  ہے کہ اس کو سیاسۃ وتعزیراً سے اور یہ سزا اس جرم  شتم کی نوعیت  کے اعتبار سے مختلف  ہوسکتی ہے  ، اگر  یہ شتم  اعلانیہ ہو یا ذمی  اس کا بار بار  ارتکاب  کرے  تو اس کو تعزیراً قتل بھی کیا جاسکتا ہے ۔

 جہاں تک  اس بات کا   تعلق ہے کہ اگر کوئی ذمی  شتم کا مرتکب ہو اور پھر وہ اپنی غلطی  کا اعتراف  کرے اور سچی توبہ   کرتے ہوئے   معافی کی درخواست  کرے تو ا س بارے  میں عرض  یہ  ہے کہ عنداللہ  تو اس کا گناہ  معاف ہوسکتا ہے لیکن جہاں تک دنیوی  احکام کا تعلق ہے  تو حضرات احناف   ؒ کے نزدیک  اس صورت  میں تعزیر  ہے  اور حاکم کو اختیار حاصل ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی  کے مرتکب  کو سیاسۃ ً وتعزیراً قتل کرنے کا حکم جاری  کرے،  البتہ  اگر حاکم  یا عدالت  یہ سمجھے  کہ مجرم کا جرم  اس  درجہ کا نہیں کہ اس کو تعزیرا قتل کیاجائے  یا قرائن  سے اس کی توبہ کا سچا ہونا  معلوم ہوتو قتل نہ  کرنا  بھی جائز ہے  اور قتل  سے کم جو سزا حاکم  مناسب سمجھے  وہ بیرحال دےسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ آج کل کے زمانہ میں  حرمت رسول علیہ السلام  پر غیر مسلموں کی طرف سے مختلف طریقوں سے حملے جاری  ہیں، حاکم وقت کی ذمہ داری   ہے کہ شاتم رسول  کو ایسی  سزا   دے جس سے دوسروں کو  عبرت   ہو، اگر چہ  غلطی کا اعتراف  کرکے معافی مانگ لے کیونکہ  یہ معاملہ عصمت انبیاء علیہم السلام کا ہے اور حاکم یا عدالت  اس وقت ان کی طرف سے نائب ہے۔ اگر اس کو بغیر سزا کے چھوڑدیا گیا تو آئندہ  اوروں کو بھی اس قبیح  جرم کے ارتکاب کی جرات ہوگی  ۔

 نیز  واضح رہے کہ اگر   ملکی قانون کے مطابق  اس جرم  پر علی ا لاطلاق  قتل کی سزا مقرر کردی گئی ہو تو چونکہ شافعیہ  ، مالکیہ اور حنابلہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک  ذمیہ شاتم   کی سزا قتل ہے  اور اس کی توبہ اسلام  لانے سےقبل  مقبول نہیں اور حضرات  احناف ؒ  کے نزدیک  حکم حاکم خلاف  ہے، لہذا عدالت  ملکی قوانین   ( اور ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے مذہب  کے مطابق )  اسی سزا ( قتل)  کو نافذ کرنے کی پابند ہوگی ۔

 البتہ کسی  ذمی پر شاتم  کا محض جھوٹا الزام لگایا گیا ہو ( مثلا  کسی ذاتی دشمنی  کی بنیاد پر  اس کو سزا دلوانے  کے لیے کسی  نے اس پر شتم  کا جھوٹا الزام  لگایاہو )  اور عدالت  کے نزدیک   بغیر  کسی رعایت  کے تحقیق کی بنیاد  پر یہ بات ثابت  ہوجائے کہ ذمی لگایا  گیا الزام  محض جھوٹ  پر مبنی ہے اور واقع  میں کوئی ایسی  بات پیش  نہیں آئی  تو ایسی صورت  میں اس ذمی کے  اس الزام  سے بری ہونے کی بناء پر عدالت  اس کو چھوڑ سکتی ہے  اور غلط الزام   لگانے والے شخص کو عدالت  سزا دے سکتی  ہے۔

 ( العبارات المتعلقہ بالشاتم المسلم  )

عربی عبارات کے لیے مسلک لنک پر پی ڈی ایف فائل حاصل کریں :https://www.facebook.com/groups/497276240641626/569954226707160/

 الجواب 

عبدالحفیظ  حفظہ اللہ تعالیٰ

دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

 الجواب الصحیح 

 بندہ محمد تقی عثمانی  عفی عنہ   

اپنا تبصرہ بھیجیں