شوہر سے الگ گھر کا مطالبہ کرنا

سوال:محترم جناب مفتیان کرام! السلام علیکم و رحمة الله وبركا ته!کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بیوی پندرہ سالوں سے سسرال میں رہ رہی ہے، جوائنٹ فیملی میں۔ جس میں ساس سسر اور دیور جیٹھ بھی شامل ہیں، لیکن کوئی ظاہری تکلیف بھی نہیں ہے۔ خوش ہے مگر اب بچوں کے بڑے ہونے کے بعد، بیوی کا الگ پورشن بنوانے کا مطالبہ کرنا کیا غلط ہے؟ اور شوہر کو اس بات سے بھی اعتراض ہو کہ اس بارے میں بات بھی نہ کی جائے۔ یہاں تک بول دے کہ نہیں رہنا تو اپنی امی کے گھر چلی جاؤ۔ اس بارے میں کیا حکم ہے۔ جزاک اللہ

الجواب باسم ملهم الصواب

وعلیکم السلام و رحمة الله!

اگر جوائنٹ فیملی میں کوئی ظاہری تکلیف نہیں ہے اور خاوند نے بیوی کو الگ کمرہ دے رکھا ہے جس میں صرف اسی کا تصرف ہے تو بیوی الگ گھر کا طالبہ نہیں کر سکتی۔ بہشتی زیور میں ہے کہ “ گھر میں سے ایک جگہ عورت کو الگ کردے کہ وہ اپنا مال اسباب حفاظت سے رکھے اور خود اس میں رہے سہے اور اس کی قفل کنجی اپنے پاس رکھے، کسی اور کو اس میں دخل نہ ہو، فقط عورت ہی کے قبضے میں رہے توبس حق ادا ہوگیا، عورت کو اس سے زیادہ کادعوی نہیں ہوسکتا، اور یہ نہیں کہہ سکتی کہ پورا گھر میرے لیے الگ کردو۔ (رہنے کے لیے گھرملنے کا بیان، ص:333)

🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸

بقلم:

قمری تاریخ: 14 رجب 1442ھ

عیسوی تاریخ: 26 فروری 2021

اپنا تبصرہ بھیجیں