سود سے پاک معیشت

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے: ’’ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب کوئی فرد یا گھر ایسا نہ ہو گا جس میں سود کا اثر نہ پہنچ جائے اور اگر سود کا اثر نہ پہنچا تو سود کا دھواں ہی پہنچ جائے گا۔‘‘ آج اگر ہم اپنی معیشت پر نظر ڈالیں تو موجودہ معیشت کو اس حدیث کا پوری طرح مصداق پاتے ہیں۔ تقریباً ہمارے90 فیصد کاروبار سودی قرضوں کے ذریعے چل رہے ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ مول لینے کے مترادف ہے۔

آج صورت حال یہ ہے آپ نے کاروبار کرنا ہو دُکان یا مارکیٹ کھولنی ہو یا بلڈگ تعمیر کرنی ہو ملک سے باہر سامان روانہ کرنا ہو یا درآمد کرنا ہو سب میں بینک کسی نہ کسی طرح ملوث ہوتا ہے، جبکہ اکثر اوقات اس میں سود کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ 

سوال یہ ہے کیا ہماری معیشت سود سے پاک ہو سکتی ہے؟ ہمارا دین تو یہ رہنمائی کرتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے خاندان کا سود معاف کر دیا تھا اور وہیں سے مسلمانوں کو سود کی لعنت سے نجات ملی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ ایسے لوگ آگے آتے گئے جن کا تمام کاروبار سودی لین دین پر انحصار کرتا رہا، اور آج نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ دنیا میں سب اسلامی ممالک سود کی لعنت میں ملوث ہو چکے ہیں۔ سود کی حرمت کے بارے میں قرآن و حدیث میں جو وعیدیں نازل ہوئی ہیں کیا وہ مسلمانوں اور مسلمان حکمرانوں کو معلوم نہیں؟ حیرت کا مقام ہے کہ پھر بھی لوگ سود میں ملوث ہیں! 

ہمارا ایمان ہے کہ مسلمان اپنے رب کے احکام پورے کرنے کا پابند ہے مگر وہ پابندی کر نہیں پا رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری معیشت کو دشمنانِ اسلام نے ایسا کر دیا ہے کہ مسلمان سود کے بغیر نہ قرضہ لے سکے اور نہ کاروبار کر سکے۔ ملکی اور بین لاقوامی حالات کو یہود، ہنود اور نصاریٰ نے اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ دنیا کی کل آبادی 5 سے 6 ارب نفوس پر مشتمل ہے، جس میں سے تقریباً ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد تو اچھی خاصی ہے مگر دشمن بہت زیادہ ہیں۔ عالمی معیشت کا نظام بینکاری کی وجہ سے ہے جس میں اہم عنصر سود ہے نہ کہ شراکت داری۔ 

مسلمان اگرچہ ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں کہ کسی طرح یہود و نصاریٰ کے معاشی چنگل سے چھٹکارا مل جائے مگر یہ ایک بہت بڑی کوشش کا متقاضی ہے۔ اسلام کے جنم لینے سے پہلے سے سودی نظام موجود تھا۔ یہودی اور ہندو اپنا سرمایہ سود پر دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو بھی بڑی دانست و عقل سے نوازا ہے اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا مددگار بھی ہے۔ جو لوگ سود کے گناہ سے بچنا چاہتے ہیں وہ یقینی طور پر کہیں نہ کہیں کام میں لگے ہوئے ہیں مگر یہود و ہنود بھی اُن کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ مسلمان کہیں غیر سودی نظام اپنا نہ لیں۔ 

وہ ہمیشہ ایسی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں جو مسلمانوں کو سودی نظام سے دور لے جارہی ہوں۔ جس کے نتیجے میں مسلمان اپنی منزل سے ہٹ جاتے ہیں یا کئی سال پیچھے چلے جاتے ہیں۔ جب کوئی بینک شراکت داری کے اُصول پر قرضہ دیتا ہے اور تھوڑا مشہور بھی ہو جاتا ہے تو دشمن جھپٹ پڑتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی تاجر نے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس کے نام سے ایک بینک بنایا تھا۔ اس کی اندرونی اور بیرونی دنیا میں کافی برانچیں کھل گئی تھیں۔ دشمن کو وہ بینک ایک آنکھ نہ بھایا اور اُس پر غیر قانونی ٹرانسفر منی لانڈرنگ اور غیر قانونی سرمایہ کاری جیسے الزامات لگوا کر اُسے برباد کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کروڑوں ڈالر کا سرمایہ تباہ ہو گیا اور مالکان صدمے کی وجہ سے اپنی جانوں سے بھی گئے۔ مسلمان سرمایہ کار غیر مسلم کے نرغے میں آ گئے اور بینک کی تمام برانچیں بند ہو گئیں۔ آج الحمد للہ! میزان بینک، دبئی اسلامی بینک اور فیصل بینک وغیرہ اسلامی بینکاری میں مددگار ہیں۔ اُمید ہے یہ بینک اپنے اصول و ضوابط اور قانونی پیچیدگیوں سے آگاہ ہوں گے۔ ہماری دلی دعا ہے کہ جو بینک بھی بلاسود بینک کاری کرے، اللہ تعالیٰ اُس کو ترقی دے تاکہ آنے والے کل میں ہماری نسلوں کو سود سے پاک نہ صرف معیشت میسر ہو بلکہ سودی اثرات سے مسلمانوں کے وجود بھی پاک ہو جائیں۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے: ’’حرام مال سے پلنے والا جسم دوزخ میں جلنے کے ہی لائق ہے۔‘‘ مسلمان اُمرائ، رؤسا اور اہل حکومت پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معیشت کو اسلامی اصولوں کے مطابق استوار کرنے میں حتی الامکان کوشش کریں۔ کیونکہ جن کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور ہے اور جن کے ہاتھوں میں بینکوں اور تجارت کا نظام ہے، اگر پوری توجہ سے اس کام کو کرنے کا بیڑا اُٹھائیں تو اللہ کی توفیق سے کام ہو سکتا ہے۔ 

ظاہر ہے یہ کام عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اُسے تو اپنی دو وقت کی روٹی کی فکر نے ہی اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ اسی طرح ایک ذمہ داری علمائے کرام کی بھی ہے کہ وہ اپنی مساجد اور وعظ و خطابات کے دوران عوام کو حرام کے نقصانات اور حلال کے فوائد کا بتاتے رہیں۔ ایسا کرنے سے مسلمانوں کی نہ صرف معیشت بلکہ معاشرہ بھی پاکیزہ ہو سکتا ہے۔ تجارت پیشہ حضرات کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کو اُن اجزا سے بچائیں جو شریعت کی رو سے حرام ہیں۔ بینکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرضہ دینے کے لیے شرعی طریقہ اپنائیں، جیسے: شراکت داری، مضاربہ اور مشارکہ کے نظام۔ آج کی دنیا میں فقہائے کرام نے اپنی تحقیق کے ذریعے شریعت کے قوانین کو کھول کر بیان کیا ہے تاکہ کاروبار میں غیر سودی طریقے اپنائے جائیں۔ 

اللہ تعالیٰ عالم اسلام کو قوت تدبیر عطا کریں اور اپنے علم و حکمت اور اللہ کی مدد سے ایسے معاشرے کی تعمیر کریں جو دوزخ سے بچ کر جنت میں اپنی جگہ بناسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں