سودکی تعریف

﴾ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۸۰﴿

سوال:-      سود کی تعریف کیا ہے ؟؟وضاحت سے سمجھادیجیے ۔

سائل : عبد اللہ ، کراچی 

جواب :-       سود قرض پر مشروط نفع کو کہتے ہیں ،مثلاً: ایک لاکھ روپے قرض دے کر کہنا کہ میں دو مہینے بعد  ایک لاکھ دس ہزار روپے لوں گا تو اضافی دس ہزار روپے سود ہوں گے۔

         اسی طرح بیع ( خرید فروخت ) کے معاملے میں جن دو چیزوں کا باہمی تبادلہ ہوتا ہے ، وہ اگر دو باتوں میں مشترک ہوں:

 (1) جنس،مثلاً: سونے کے بدلے سونا، چاول کے بدلے چاول فروخت کیا جائے ۔

 (2) دونوں وزن یا کیل ( برتن سے ناپ کر ) کے فروخت کیے جاتے ہوں،تو اس صورت میں دونوں چیزوں کا برابر سرابر ہونا اور معاملہ کا نقد ہونا ضروری ہے ، اس صورت میں (1) کمی زیادتی (2) اور ادھار ، سود کے حکم میں ہوگا  اور ناجائز ہوگا۔

         اگر دونوں اشیاء صرف ایک چیز میں مشترک ہوں، مثلاً : دونوں ہم جنس ہو ں لیکن وزن اور کیل کے ذریعے نہ بکتے ہوں ،مثلاً : کینو کے بدلے کینو یا کیلے کے بدلے کیلے کی خرید فروخت ہو ،یا دونوں ہم جنس نہ ہوں ، لیکن وزن اور کیل سے فروخت ہونے میں مشترک  ہوں ، مثلاً:  گندم کے بدلے چاول یا پیٹرول کے بدلے مٹی کا تیل بیچا جائے تو صرف ادھار ناجائز ہوگا، کمی زیادتی جائز ہوگی۔

         اگر دونوں باتیں مختلف ہوں ،مثلاً کیلے کے بدلے کینو فروخت ہوں تو چونکہ  یہ دونوں ہم جنس نہیں اور گن کر فروخت ہوتے ہیں ، وزن یا کیل کر کے فروخت نہیں ہوتے ، اس لیے کمی زیادتی اور ادھار  دونوں جائز ہوں گے۔

          یہ سود کی تھوڑی سی وضاحت تھی تاہم یاد رہے کہ سود کے مسائل بہت پیچیدہ ہوتے ہیں اس لیے خود سے ان اصول کو پیش آمدہ صورت میں منطبق کرنے کی بجائے دارالافتاء سے رجو ع کرنا ضروری ہے۔

( الجامع الصغیر : ۹۴/۱) 

 “كل قرض جر منفعة فهو ربا “

ہر وہ قرض جو نفع کھیچ کرلائے ربا ہے۔

”ربا النسیئۃ “کی امام ابوبکر جصاص ؒجامع تعریف یوں بیان فرماتے ہیں :

” وهو القرض المشروط فيه الأجل وزيادة مال على المستقرض “

قرض كا وه معاملہ جس میں ایک مخصوص مدت کے بعد ادائی اور قرض دار پر مال کی کوئی زیادتی طے کرلی گئی ہو۔

( احکام القرآن : ۵۵۷/۱)

اس تعریف کی رو سے ہر وہ قرض جس کے ذریعے اس سے زیادہ رقم وصول کی جائے سود میں داخل ہے مثلا کسی شخص کو 100 روپے قرض اس شرط پر دیے کہ ایک ہفتہ کے بعد 110 روپے لوں گا یہ زیادتی سود ہے اور اس کا لینا دینا حرام ہے ، چونکہ سود کی اس قسم کی حرمت قرآن کریم سے ثابت ہے ،اس لیے اس کو ’’ ربا القرآن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

سود کی دوسری قسم” رباالفضل “ہے اس کی حرمت حدیث نبوی ﷺ سے ثابت ہے اس کو ’’ربا الحدیث ‘‘ کہتے ہیں چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : 

عن عبادة بن الصامت، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الذهب بالذهب، والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعير بالشعير، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلا بمثل، سواء بسواء، يدا بيد، فإذا اختلفت هذه الأصناف، فبيعوا كيف شئتم، إذا كان يدا بيد» صحيح مسلم – (3 / 1211)

(هداية :5/۱۷۳، مکتبۃ البشری )

الرِّبَا مُحَرَّمٌ فِي كُلِّ مَكِيلٍ أَوْ مَوْزُونٍ إذَا بِيعَ بِجِنْسِهِ مُتَفَاضِلًا فَالْعِلَّةُ عِنْدَنَا الْكَيْلُ مَعَ الْجِنْسِ وَالْوَزْنُ مَعَ الْجِنْسِ.قَالَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: وَيُقَالُ الْقَدْرُ مَعَ الْجِنْسِ وَهُوَ أَشْمَلُ.وَالْأَصْلُ فِيهِ الْحَدِيثُ الْمَشْهُورُ وَهُوَ قَوْلُهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – «الْحِنْطَةُ بِالْحِنْطَةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ يَدًا بِيَدٍ، وَالْفَضْلُ رِبًا»

 

( قدوري : 356)

 “فإذا بيع المكيل أو الموزون بجنسه مثلا بمثل جاز البيع وإن تفاضلا لم يجزولا يجوز: بيع الجيد بالرديء مما فيه إلا مثلا بمثل فإذا عدم الوصفان الجنس والمعنى المضموم إليه حل التفاضل والنساء وإذا وجدوا حرم التفاضل والنساء وإذا وجد أحدهما وعدم الآخر حل التفاضل وحرم النساء “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں