سورۃ آل عمران میں مسیحی عقائد کی تردید

اس سورت کی ابتدائی تراسی آیات گویا آدھی سورت نجران کے عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو ۹ھ میں اپنے عیسائی عقائد اور اسلام کے بارے میں مناظرہ کرنے آئے تھے۔ قرآن کریم نے نہایت مضبوط دلائل کے ساتھ ان کے عقائد کی تردید فرمائی، حضرت عیسی علیہ السلام کی درست پوزیشن واضح کیا۔
سورت میں پہلے اﷲ تعالیٰ کے اسم اعظم کا ذکر فرماکر توحیدکاذکر ہوا اللہ لاالہ الاھو الحی القیوم کہ اﷲ ایک ہے تین نہیں۔ اس سے عیسائیوں کے عقیدہ تثلیت کی تردید ہوئی۔
اس کے بعد انسان کی تخلیق کا ذکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ جس طرح چاہے ماں کے پیٹ میں تمہاری صورت بنادے اس طرح اس میں واضح اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی پیدا کیے گئے ،حضرت بی بی مریم آپ کی والدہ ہیں توپیدا ہونے والا کیسے خدا ہوسکتے ہیں؟معبود وہ ہوتا ہے جو ہمیشہ سے ہو ہمیشہ رہے۔وہ مخلوق کی صفات سے پیدا ہونے، مرنے سے، کھانے پینے سے پاک ہوتا ہے۔
اسی طرح اکثر عیسائی عقیدہ کفارہ کے مطابق اس کے قائل ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دی گئی تو مرنے والا خدا کیسے ہوسکتا ہے؟ خدا تو وہ ہوتا ہے جو ہمیشہ سے زندہ ہو اور ہمیشہ زندہ رہنے والا ہو۔
دنیا میں عموما انسان ماں باپ کے ملاپ سے پیدا ہوتے ہیں ، صرف حضرت عیسی بغیر باپ کےصرف ماں سے پیدا ہوئے ہیں اگر بغیر باپ کے پیدا ہونے سے انسان خدائی کے مرتبے پر فائز ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام اس بات کے زیادہ حق دار ہوئے کہ انہیں خدا کہا جائے؛کیونکہ وہ تو بغیر ماں باپ کےپیدا کیے گئے۔العیاذ باللہ
عیسائیوں کی گمراہی کی بنیادی وجہ:
پھر عیسائیوں کی گمراہی کی اصل وجہ بتائی گئی ہے کہ وہ متشابہات سے دھوکا کھاگئے ہیں۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے محکم و متشابہ آیتوں کی وضاحت فرمائی ہے کہ دراصل آسمانی کتابوں کی آیات دوطرح کی ہوتی ہیں: ایک محکم دوسری متشابہ۔
محکم ان آیات کوکہاجاتا ہے جن کے معنی بالکل صاف اور بے غبار ہوں ،اس میں کسی قسم کی پیچیدگی ہو نہ وہ منسوخ ہوں۔یہی آیات درحقیقت”ام الکتاب”ہوتی ہیں۔عقائدواحکام اور حلال وحرام کا ماخذ یہی آیات ہوتی ہیں۔
دوسری قسم ہےمتشابہ۔متشابہ ان آیات کوکہاجاتا ہے جن کے معنی یاتوسرے سے معلوم ہی نہیں ہوتے ،جیسے حروف مقطعات ۔یا الفاظ کے معنی معلوم ہوتے ہیں لیکن مصداق کیا ہےاس میں متعدد احتمالات کی گنجائش ہوتی ہے۔کچھ احتمالات ایسے بھی ہوتے ہیں جو محکم کے خلاف ہونے کی وجہ سے فاسد اور باطل ہوتے ہیں۔
اصول یہ ہے کہ متشابہ کو محکم کی روشنی میں ہی سمجھنا چاہیے ، بذات خود متشابہات کو ہی ماخذ نہیں بنانا چاہیے۔
لیکن عیسائیوں سے یہاں غلطی ہوگئی۔حضرت عیسی علیہ السلام سے متعلق دو قسم کی آیات تھیں :
1۔محکم آیات سےصاف واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں اورحضرت آدم علیہ السلام کی طرح ایک انسا ن ہی ہیں ۔جس طرح اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بغیر ماں باپ کے پیدا کیا، مٹی کا پتلا بناکر “کن ” کہا تو حضرت آدم علیہ السلام میں روح پڑگئی،اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو بغیرباپ کے پیدا کیا، اللہ تعالی نے “کن ” فرمایاتو بی بی مریم کے شکم مبارک میں حضرت عیسی علیہ السلام کی افزائش شروع ہوگئی۔
2۔دوسری طرف متشابہ آیات ہیں جس میں حضرت عیسی علیہ السلام کو “روح اللہ” اور “کلمۃ اللہ” کہا گیا ہے۔
عیسائی طبقہ متشابہ آیات سے استدلال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قرآن نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنی روح اور اپنا کلمہ کہا ہے اس کا مطلب یہ بنا کہ عیسی خدا ہیں۔حالانکہ روح اللہ اور کلمۃ اللہ کا یہ مصداق اخذ کرنا محکمات کے خلاف ہے۔محکمات سے واضح ہوچکا ہے کہ ایسا کہنا شرک ہے ۔عیسی علیہ السلام خدا ہیں نہ اس کے بیٹے ،بلکہ انسانوں میں سے ایک انسان ہیں۔ کلمۃ اللہ اور روح منہ کے ایسے معنی لیے جائیں گے تو محکمات کے مطابق ہو اور وہ یہ کہ کلمۃ اللہ سے مراد کلمہ “کن ” کہنا ہے اور روح منہ اس لیے کہا گیا کہ جبرئیل امین جن کا لقب روح ہے ان کی وساطت سے یہ کام انجام دیا گیا۔
انسانی نفسیات:
اللہ تعالی نےانسانوں کے اندر دوطرح کی قوتیں ودیعت کی ہیں۔ایک طرف صنفی کشش، سونا، چاندی، مال و اولاد، جاہ و خدم کی محبتیں رکھی ہیں تو دوسری طرف ایمان واطاعت کی صلاحیتیں پیدا کی ہیں۔دونوں قوتیں دیے جانے کے بعد انسان سے کہا گیا ہے کہ وہ ٹکراؤ کے موقع پر ایمان واطاعت کو ہرچیز کی مقابلے میں مقدم رکھیں۔اطاعت کے مقابلے میں جس نے دنیا اور اس کی نعمتوں کو ٹھکرایا وہی درحقیقت جنت کی نعمتوں کا حق دار ہے۔{زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ} [آل عمران: 14]
کفار سے تعلقات:
اس سورت میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ کفار سے قلبی دوستی نہ رکھی جائے، ہاں ہمدردی، حسن سلوک، مہمان نوازی اور کاروباری تعلقات جائز ہیں اسی طرح ان کے شر سے بچنے کے لیے بامر مجبوری، دوستی کا اظہار بھی جائز ہے۔ کفار کو اپنا راز داں بنانے اور انہیں بڑے عہدے دینے سے منع کیا گیا اور قیامت تک کے لیے یہ اصول بتادیا کہ کبھی بھی یہود و نصاریٰ مسلمانوں کا بھلا نہیں سوچ سکتے۔ وہ سامنے کچھ ظاہر کرتے ہیں اور درپردہ کچھ اور کرتے ہیں ۔
{ لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً}
آج مسلم امت نےعمومی طور پراس حکم خداوندی کو پس پشت ڈال رکھا ہےجس کا خمیازہ سبھی کو بھگتنا پڑرہا ہے۔مجبوری ہو تو ظاہری دوست یاری سمجھ آتی ہے لیکن یہاں توبغیرمجبوری کے بھی ہر کوئی ان کی طرف لپک رہا ہے۔ انہی کے گن گائے جارہے ہیں ان کی تہذیب پر فخر کیاجارہا ہے۔یہ بڑی افسوس ناک صورت حال ہے۔اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے، آمین!
مباہلہ:
آیتفَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ} [آل عمران 61) کو مفسرین آیت مباہلہ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں مباہلہ کا ذکر آیا ہے۔ایک دوسرے پر بددعا کرنا تا کہ جو باطل پر ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہواور جو حق پر ہے اسے پہچانا جائے، اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جائے،مباہلہ کہلاتا ہے۔
قرآن کی اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مباہلہ صرف قطعی عقائد میں ہوتا ہے۔ فروعی مسائل میں مباہلہ نہیں کر سکتے۔ یہ صرف اسلام کی حقانیت کے لیے ہو سکتا ہے۔
مباہلہ الگ ہے مناظرہ الگ۔مناظرہ مستقل ایک فن ہے۔مناظرے میں دلائل دیے جاتے ہیں،مباحثہ ہوتاہے جبکہ مباہلہ میں ایسا نہیں ہوتا۔
اختلافات ختم کرنے کے اصول:
اس سورت میں مناظرے کے چند آداب اور فرقہ بندیوں کے خاتمے کا ایک زریں اصول بتایا گیا ہے کہ مشترکات اور متفقہ امور پر زیادہ توجہ دی جائے۔ اختلافی بحثوں کو زیادہ اچھالا نہ جائے۔اس سے اختلافات بڑھنے کے امکانات کم رہ جاتے ہیں۔{قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ} [آل عمران: 64]
اگر آج ہم بھی یہی اصول اپنالیں تو بڑھتے ہوئے اختلافات کم ہوجائیں گے۔مخالف بات نہ مانے تو بعض حالات میں مباہلہ کا طریقہ بتایا گیااور بعض حالات میں ان سے اعراض کرنے کا کہا گیا ہے۔
متفرق احکام
اس سورت میں کچھ احکام تو وہ ہیں جن کا ذکر پہلے ہوا۔ اس کے علاوہ مختلف آیات میں جو احکام وارد ہوئے ہیں ان کا خلاصہ یوں ہے:
1۔ماں بھی اپنے بچوں کا نام رکھ سکتی ہے اور بچے کا نام پہلے دن رکھنا بھی جائز ہے۔ جیسے: حضرت مریم علیہا السلام کا نام ان کی والدہ حنہ نے رکھا اور پہلے ہی دن رکھا۔{ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ} [آل عمران: 36]
2۔ منت اور نذر ماننا جائز ہے۔ { رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا} [آل عمران: 35]
3۔ کرامات اولیا برحق ہیں۔ {كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ يَامَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ} [آل عمران: 37]
4۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے ہیں۔ جو شخص اس عقیدے کا قائل نہ ہو وہ فاسق اور گمراہ ہے۔ {إِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ} [آل عمران: 55]
5۔ مرتد بھی کافر کی طرح ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ مرتد حالت ارتداد میں جتنی بھی توبہ کرتا رہے جب تک اسلام نہیں لائے گا اس کی کوئی توبہ قبول نہیں۔ {إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ} [آل عمران: 90]
6۔جس شخص کاحالت کفر میں انتقال ہوجائے اس کی کسی بھی طرح بخشش مکمن نہیں۔{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ مِلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ } [آل عمران: 91]

اپنا تبصرہ بھیجیں