1۔قسم زیادہ نہیں کھانی چاہیےخصوصا نیکی کے کاموں سے بچنے کے لیے قسم کھانا نہایت نامناسب ہے۔{وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ} [البقرة: 224]
2۔ قسم کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ لغو قسم پر کوئی پکڑ نہیں۔اس قسم پر مواخذہ ہےجس میں قسم کھانے والے کا ارادہ شامل ہوجیسے جھوٹی قسم یاآئندہ کسی کام کوکرنے یانہ کرنے کی قسم ۔ {لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ} [البقرة: 225]
لغو قسم سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص نے گزشتہ کسی واقعے کو سچ سمجھتے ہوئے قسم کھالی حالانکہ وہ واقعہ اس طرح نہیں تھا جیسے وہ سمجھ رہا ہے جیسے :کل بارش نہیں ہوئی لیکن وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ کل بارش ہوئی تھی اور اسی غلط فہمی کی بنیاد پر وہ قسم کھائے ۔اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
جھوٹی قسم جو جان بوجھ کر گزشتہ یا موجودہ کسی واقعے کے بارے میں جھوٹی قسم کھائی جائے جیسےاسے اچھی طرح پتا ہے وہ کل نہیں آیا تھا پھر بھی قسم کھائے کہ میں آیا تھا۔جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے۔منعقدہ قسم کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص آئندہ کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھالےمثلا کہہ دے کہ اللہ کی قسم ! میں آپ سب کی دعوت کروں گا یا اللہ کی قسم ! میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔یہ قسم ٹوٹ جائے تو کفارہ دینا پڑتا ہے ،کفارہ صرف اسی قسم کا آتا ہے۔
Load/Hide Comments