سسر کے بہو کو ہاتھ لگانے کا حکم

سوال : مجھے آج اس بات کا پتہ چلا کہ سسر اپنی بہو کو ٹچ کرے ( ہاتھ لگائے ) تو اس عورت کا اپنے شوہر سے نکاح ختم ہوجاتا ہے چاہے سسر رشتے میں اس کا ماموں یا چچا تایا کیوں نہ ہو، لیکن جب وہ سسر بن گیا تو عورت کو کسی صورت ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ مجھے اس کا جواب عنایت فرمائیں
الجواب باسم ملھم الصواب
یہ بات غلط ہے کہ سسر کے محض ہاتھ لگنے سے بیوی شوہر پہ حرام ہوجاتی ہے، یہ بات شرعا درست نہیں۔
البتہ اگر سسر شہوت کے ساتھ بہو کو بغیر کسی حائل کےہاتھ لگائے تو اس صورت میں عورت اپنے شوہر پہ حرام ہوتی ہے، لہذا اس مسئلے میں اتنے شک میں نہیں پڑنا چاہیے۔
البتہ اس فتنے کے دور میں سسر کو بہو کے ساتھ بہت زیادہ بے تکلف ہونے میں احتیاط کرنی چاہیے ۔
===================
حوالہ جات :
1 ۔ ” ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك وإن كان رقيقا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت” ۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب النکاح، الباب الثالث :القسم الثانی المحرمات بالصھریۃ،340 /1 ، دارالفکر )۔
2 ۔” وقال عامة العلماء الشهوة أن يميل قلبه إليها ويشتهي أن يواقعها “۔
(فتاوی قاضی خان،کتا ب النکاح،باب فی المحرمات،317 / 1 ، دارالکتب العلمیۃ)۔

3 ۔”وكما تثبت هذه الحرمة بالوط۔۔۔۔۔۔۔۔ ولا تثبت بالنظر إلى سائر الأعضاء إلا بشهوة ولا بمس سائر الأعضاء لا عن شهوة بلا خلاف“۔
(الفتاوى الهندية،كتاب النكاح،الباب الثالث في بيان الحرمات،1/274)۔
قلت: ويشترط وقوع الشهوة عليها لا على غيرها۔۔۔قوله: (ولا فرق فيما ذكر) أي من التحريم وقوله: بين اللمس والنظر وصوابه في اللمس والنظر، وعبارة الفتح ولا فرق في ثبوت الحرمة بالمس بين كونه عامدا أو ناسيا أو مكرها أو مخطئا إلخ ….قوله: (وتكفي الشهوة من إحداهما) هذا إنما يظهر في المس …..قوله: (وبحرمة المصاهرة إلخ) قال في الذخيرة: ذكر محمد في نكاح الأصل أن النكاح لا يرتفع بحرمة المصاهرة ….قوله: (إلا بعد المتاركة)… بأن المتاركة لا تتحقق إلا بالقول۔ (ردالمحتارعلی ھامش الدرالمختار، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، 108-114 /4 ، دارالکتب العلمیۃ)۔
واللہ اعلم بالصواب۔
14 شعبان 1444
6 مارچ 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں