(۱) میڈیکل انشورنس پالیسی ہولڈر اور انشورنس کرنے والے ادارے کے درمیان ایسا معاہدہ ہے جس میں وہ ادارہ پالیسی ہولڈر سے یکمشت یا قسط وار متعینہ رقم وصول کر کے محدود مدت کے اندر اندر پالیسی ہولڈر کے کلی یا جزئی علاج یا اس کے اخراجات کی ذمہ داری قبول کرتا ہے ،اور اگر محدود مدت کے اندر اندر پایسی ہولڈر کو بیماری پیش نہ آئے تو جمع شدہ رقم واپس نہیں کی جاتی اور آج کل رائج میڈیکل انشورنس کی شکلیں دیگر انشورنس کی طرح قمار کے دائرے میں آتی ہیں اور ناجائز ہیں.
(۲) چونکہ اجتماع کے بعض شرکاء کی طرف سے مقالوں میں اور بحث کے دوران کچھ ایسی باتیں بھی سامنے آئی ہیں جن سے میڈیکل انشورنس کے قمار کے بجائے تعاون پر مبنی ہونے کا اشارہ ملتا ہے اس لئے یہ اجتماع مناسب سمجھتا ہے کہ ادارۃ المباحث الفقہیہ کی طرف سے علماء اور ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو انشورنس کمپنیوں کے اصول و ضوابط اور مختلف شکلوں کا جائزہ لیکر اپنی تحقیق پیش کرے۔ اس کے بعد اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اس پر دوبارہ غور کیا جائے گا۔
(۳) قانونی مجبوری کی صورت میں میڈکل انشونس کرانے کی گنجائش ہے۔
(۴) ملازمین کے لئے غیر اختیاری انشورنس جس میں انشورنس کی رقم ان کی تنخواہوں سے کمپنی از خود کاٹ لیتی ہیں یا وہ اپنے سے پاس سے جمع کراتی ہے تو اس طرح کی انشورنس پالیسی سے ملازمین کو فائدہ اُٹھانے کی گنجائش ہے۔
(۵)اسپتالوں کی طرف سے مخصوص بیماریوں کے علاج کے لئے جاری کئے جانے والے میڈیکل پیکییج لیکر اس سے فائدہ اُٹھانا جائز اور درست ہے۔
(۶)حکومت غریبوں کے لئے بلا معاوضہ یا معمولی رقم بطور فیس لیکر کارڈ جاری کرکے جو طبی امداد فراہم کرتی ہے اس سے بھی انتفاع جائز ہے ۔
(۷)آج کل ایک طرف جہاں نت نئی بیماریاں عام ہیں وہیں ان کا علاج بھی گراں سے گراں تر ہوتا جا رہا ہے خصوصاً اعضاء رئیسہ (دل گردہ وغیرہ) کا تعطل اور کینسر وغیرہ کا علاج ایک غریب بلکہ متوسط طبقے کے لئے بھی نا قابل تحمل ہے اس لئے بلا شبہ انسانی معاشرے کی ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ امداد باہمی کا ایسا نظام قائم کیا جائے جس سے ضرورت مندوں کا بر وقت تعاون ہو سکے، اس لئے یہ فقہی اجتماع تمام مسلم اداروں بالخصوص طب و صحت اور رفاہی خدمات سے جڑی ہوئی تنظیموں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ اثر میں منکرات و محرمات سے بچتے ہوئے شرعی تکافل (امداد باہمی) کا نظام قائم کر نے کی کوشش کریں۔اور اس سلسلے میں اسلامی اصولوں پر مبنی تکافل کا جو طریقہ کار بعض مسلم ملکوں میں متعین کیا گیا ہے اس سے استفادہ کیا جائے