طلاق کا حکم

فتویٰ نمبر:3085

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ

اس مسئلہ کا جواب درکار ہے۔

ایک شخص نے اپنی بیوی کو کہا کہ میں نے تمہیں طلاق دی اپنا سارا سامان لے کر اپنے باپ کے گھر دفع ہوجاؤ میں تمہیں طلاق دے چکا ہوں۔بیوی اسی وقت اپنے میکے چلی گئ اور اگلے دن واپس بھی آگئی  اور جب شوہر سے بات چیت کرنی چاہی تو شوہر نے کہا کہ چپ کرکے اپنی عدت پوری کرو اور اپنے باپ کے گھر جاؤ

جبکہ اس سے ڈیڑھ دو سال قبل بھی ایک طلاق دے چکا ہے جس پررجوع کرلیا گیاتھا۔

اب اس مسئلہ میں طلاق ،عدت اور رجوع کا کیا حکم ہے؟ 

یہ طلاق رجعی ہے یا بائن؟

کیا نکاح برقرار ہے یا تجدید نکاح کرنا ہوگا؟

تفصیل سے وضاحت مطلوب ہے

والسلام

الجواب حامداو مصليا

اگر واقعی طلاق اسی طرح دی گئی ہے جس طرح سوال میں مذکور ہے تو یہ دو طلاقیں ہوگئیں،ایک طلاق وہ جو ڈیڑھ دو سال پہلے دی گئی تھی اور اب جو دی گئی ہے اسے دوسری طلاق شمار کیا جائے گا۔اور یہ طلاق رجعی ہے۔”میں نے تمہیں طلاق دی“ان الفاظ سے طلاق ہوجانا تو صاف ظاہر ہے لیکن بیوی کے بات کرنے پر یہ کہنا کہ” چپ کرکے اپنی عدت پوری کرو اور اپنے باپ کے گھر جاٶ“ اس سے کوئی تیسری طلاق نہیں ہوئی بلکہ یہ اس سے پہلے والی طلاق کی خبر ہے اور اس کی تاکید کرنا ہے۔

اس شخص نے صریح الفاظ کے ساتھ طلاق دی ہے،اس لیے اس کا حکم یہ ہے کہ طلاق دینے کے وقت سے عورت کو تین مرتبہ حیض آنے تک عدت گزارنی ہے،اس عدت کے دوران شوہر اگر چاہے تو طلاق سے رجوع کرسکتا ہے،چاہے زبان سے کہہ دے کہ”میں نے رجوع کیا“ یا وہ معاملہ کرے جو شوہر اور بیوی کے ساتھ مخصوص ہے،ایسا کرنے یا کہنے سے نکاح باقی رہے گا اور رجوع کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ دو گواہوں کے سامنے بیوی سے کہہ دے کہ میں نے تم سے رجوع کیا۔اس صورت میں دونوں پہلے کی طرح میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں،دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں اور اگر اس مدت میں رجوع نہیں کیا اور عدت ختم ہوگئی تو بیوی بائنہ ہوجائے گی یعنی نئے سرے سے نکاح کیے بغیر اس کے نکاح میں نہ آسکے گی اور نیا مہر مقرر کیا جائے گا(حلالہ کی ضرورت نہیں ہوگی)۔یہ واضح رہے کہ رجوع کیا جائے یا عدت کے بعد نکاح کیا جائے،دونوں صورتوں میں شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی رہ گیا ہے یعنی اب اگر ایک مرتبہ بھی طلاق دے گا تو تو بیوی اس پر حرام ہوجائے گی اور حلالہ کے بغیر دوسرا نکاح بھی نہ ہوسکے گا لہذا آئندہ طلاق کا لفظ استعمال کرنے سے بہت احتیاط کریں۔

”واذا طلق الرجل امراتہ تطلیقة رجعیة او تطلیقتین،فلہ ان یراجعھا فی عدتھا،رضیت بذلک او لم ترض،“(الفتاوی العالمکیریة،١|٤٧٠،الباب السادس فی الرجعة)

”(فالسنی)ان یراجعھا بالقول،یشھد علی رجعتھا شاھدین،ویعلمھا بذلک،فاذا راجعھا بالقول نحو ان یقول:راجعتک،راجعت امراتی،ولم یشھد علی ذلک،او اشھد ولم یعلمھا بذلک،فھو بدعی،مخالف للسنة،والرجعة صحیحة.وان راجعھا بالفعل مثل ان یطاھا،او یقبلھا بشھوة او ینظر الی فرجھا بشھوة،فانہ یصیر مراجعا عندنا،الا انہ یکرہ لہ ذلک،ویستحب ان یراجعھا بعد ذلک بالاشھاد،“(الفتاوی العالمکیریة،١|٤٦٨،باب الرجعة)

”اذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث،فلہ ان یتزوجھا فی العدة وبعد انقضائھا.“(الفتاوی العالمکیریة،١|٤٧٢،فصل فیما تحل بہ المطلقة وما یتصل بہ)

”وان کان الطلاق ثلاثا فی الحرة،او ثنتین فی الامة،لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا،ویدخل بھا ثم یطلقھا او یموت عنھا،والاصل فیہ قولہ تعالی((فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ)).“(الھدایة،٢|٣٩٩،کتاب الطلاق،فصل فیما تحل بہ المطلقة)

”الصریح ما لا یحتاج الی نیة،بائنا کان الواقع بہ او رجعیا.“(الدر المختار،٣|٣٠٦،کتاب الطلاق،باط الکنایات،مطلب:الصریح یلحق الصریح والبائن)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ:٢٣ جمادی الاولی،١٤٤٠ھ

عیسوی تاریخ:٣٠ جنوری،٢٠١٩ء

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبدالرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں